سروے کے نتائج، امریکہ میں بڑھتے ہوئے جنریشن گیپ کی عکاسی کرتے ہیں جہاں نوجوان امریکی فلسطینی مزاحمت کے ساتھ زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 01, 2025, 9:54 PM IST | Washington
سروے کے نتائج، امریکہ میں بڑھتے ہوئے جنریشن گیپ کی عکاسی کرتے ہیں جہاں نوجوان امریکی فلسطینی مزاحمت کے ساتھ زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔
حال ہی میں کئے گئے ایک آن لائن سروے کے نتائج نے غزہ جنگ کے بارے میں امریکی شہریوں کے خیالات میں واضح تقسیم اور جنریشن گیپ کو ظاہر کیا ہے۔ سروے کے مطابق، امریکہ میں ’جنریشن زی‘ (۱۸ سے ۲۴ سال کی عمر کے گروہ) سے تعلق رکھنے والے ہر ۱۰ میں سے ۶ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع میں اسرائیل کے مقابلے حماس کی حمایت کرتے ہیں۔
’دی ہیرس پول‘ اور ’ہیرس ایکس‘ کی جانب سے ۲۰ اور ۲۱ اگست کے درمیان کئے گئے اس سروے میں ۲۰۲۵ رجسٹرڈ ووٹروں سے پوچھا گیا کہ ”اسرائیل-حماس تنازع میں، آپ کس کی زیادہ حمایت کرتے ہیں، اسرائیل کی یا حماس کی؟“ جنریشن زی میں سے، ۶۰ نوجوانوں نے حماس کے حق میں ووٹ دیا جو تجزیہ کاروں کے مطابق فلسطینیوں کے تئیں امریکی عوامی رائے میں اہم تبدیلی کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۴۴؍ ممالک ، ۳۰۰؍ رضاکار،۵۰؍ کشتیاں، غزہ کامحاصرہ توڑنے کا عزم
اس کے برعکس، اسرائیل کیلئے حمایت، عمر کے ساتھ بڑھتی گئی۔ ۲۵ سے ۳۴ سال کی عمر کے ۶۵ فیصد افراد، ۳۵ سے ۴۴ سال کی عمر کے ۷۰ فیصد، ۴۵ سے ۵۴ سال کی عمر کے ۷۴ فیصد افراد، ۵۵ سے ۶۴ سال کی عمر کے ۸۴ فیصد افراد اور ۶۵ سال یا اس سے زیادہ عمر کے ۸۹ فیصد افراد نے حماس کے مقابلے اسرائیل کی حمایت کی۔ سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ تقریباً ۵۰-۵۰ فیصد امریکی اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ معمولی اکثریت کے ساتھ ۵۱ فیصد افراد نے کہا کہ اسرائیل پر تنقید یہود دشمنی کے بجائے فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے تئیں تشویش سے پیدا ہوتی ہے۔
سروے کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کو اگلے ماہ دو سال مکمل ہو جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سروے کے نتائج، امریکہ میں بڑھتے ہوئے جنریشن گیپ کی عکاسی کرتے ہیں جہاں نوجوان امریکی تیزی سے اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین کو تسلیم کرنے کے میکرون کے فیصلے پر اسرائیل اور امریکہ ناراض
غزہ نسل کشی
جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے محصور علاقے میں ۶۳ ہزار ۴۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔