• Sun, 14 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان میں روہنگیا اور آسام کے مسلمان شدید خطرے میں: امریکی کمیشن کا انتباہ

Updated: September 06, 2025, 6:14 PM IST | New Delhi

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے ہندوستان کی جانب سے روہنگیا اور بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ملک بدری کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کمیشن نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات مذہبی آزادی کے بحران کو سنگین بنا رہے ہیں اور ہندوستان کو’تشویش کے حامل ممالک‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ دہرا دیا۔

Rohingya refugees. Photo: INN
روہنگیا پناہ گزیں۔ تصویر: آئی این این

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے ہندوستانی حکومت کے حالیہ فیصلے کی سخت مذمت کی ہے جس کے تحت روہنگیا پناہ گزینوں کو میانمار اور بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیش واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کمیشن نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مذہبی آزادی کے بڑھتے ہوئے بحران کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کمیشن نے ایک بار پھر یہ مطالبہ دہرایا کہ ہندوستان کو’’تشویش کے حامل ممالک‘‘ (Country of Particular Concern – CPC) کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ 
’’یو ایس سی آئی آر ایف‘‘کی چیئر وکی ہارٹزلر نے خبردار کیا کہ روہنگیا کو ’شدید ظلم و ستم کے فوری خطرے‘ کا سامنا ہے اگر انہیں میانمار واپس بھیجا گیا، جہاں یہ برادری دہائیوں سے امتیاز اور تشدد سہتی آئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہندوستانی حکومت کا روہنگیا پناہ گزینوں کو بے دخل کرنا بین الاقوامی قانون اور عدمِ واپسی (non-refoulement) کے اصول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ‘‘انہوں نے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ان جبری ملک بدریوں اور بلاجواز گرفتاریوں کو روکے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اندور کے سرکاری اسپتال میں چوہوں کے کاٹنے سے۲۴؍ گھنٹوں میں دوسرے نوزائیدہ کی موت

ہندوستان نے۲۰۲۷ء سے روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جب لاکھوں لوگ میانمار کی ریاست راکھین میں فوجی کریک ڈاؤن سے بچنے کیلئے وہاں سے نکلے تھے۔ تاہم، انسانی بحران کے باوجود ہندوستانی حکومت نے روہنگیا کو بڑھتی ہوئی شدت سے’’سکیوریٹی خطرہ‘‘ قرار دینا شروع کر دیا۔ مئی میں کم از کم ۴۰؍پناہ گزینوں کو کشتی کے ذریعے واپس بھیجا گیا، جس پر عالمی سطح پر تشویش ظاہر کی گئی۔ کمیشن نے آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر بھی خدشات ظاہر کئے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے تحت ’غیر قانونی مہاجر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس پالیسی نے لاکھوں افراد کو بے وطن ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ این آر سی کا عمل مسلمانوں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بناتا ہے جس سے وہ مناسب قانونی تحفظ کے بغیر حراست اور ملک بدری کے خطرے میں ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: جی ایس ٹی کونسل نے نئی شرحیں منظور کرلیں،۲۲؍ ستمبر سےنفاذ

کمشنر اسٹیفن شینک نے کہا کہ یہ پالیسی ’’براہِ راست مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہے‘‘ اور یہ ہندوستان کی کئی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ نئی دہلی پر سفارتی دباؤ ڈالے تاکہ اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے، نہ کہ انہیں ستایا جائے۔ فی الحال ہندوستان میں تقریباً۲۲؍ ہزار روہنگیا پناہ گزین رہتے ہیں جن میں سے زیادہ تر جموں، دہلی، حیدرآباد اور میوات کے عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان میں تقریباً سبھی کے پاس اقوام متحدہ کے پناہ گزین کارڈ ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس کریک ڈاؤن، گرفتاریاں اور اب ملک بدریاں جاری ہیں۔ حقوقِ انسانی کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر بین الاقوامی دباؤ نہ بڑھایا گیا تو ہندوستان کا سخت رویہ پہلے سے ہی کمزور برادریوں کو مزید حاشیے پر دھکیل سکتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مراٹھا ریزرویشن کے جی آر سے او بی سی سماج کا غصہ پھوٹ پڑا، کئی مقامات پر احتجاج

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ’’یو ایس سی آئی آر ایف‘‘نےہندوستان پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ۲۰۲۵ءکی اپنی سالانہ رپورٹ میں کمیشن نے ایک بار پھر امریکی محکمہ خارجہ کو سفارش کی کہ ہندوستان کو’تشویش کے حامل ممالک ‘کی فہرست میں شامل کیا جائے، یہ درجہ ان ملکوں کو دیا جاتا ہے جہاں مذہبی آزادی کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ ہندوستانی حکومت نے ہمیشہ ’’یو ایس سی آئی آر ایف‘‘کی رپورٹوں کو مسترد کیا ہے اور انہیں ’متعصب اور بدنیتی پر مبنی‘ قرار دیا ہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق جاری ملک بدریاں ایک بڑھتے ہوئے اخراجی شہریت نظام کی نشاندہی کرتی ہیں، جو مسلمانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہا ہے اور ہندوستان کی ایک کثرت پسند جمہوریت کی دیرینہ شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK