اسرائیل میں تعینات امریکہ کے سفیر مائیک ہاکابی سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ کیا اب بھی فلسطینی ریاست کا قیام امریکی پالیسی کا مقصد ہے، جیسا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے رہا ہے تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا: ’’مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ‘‘
EPAPER
Updated: June 11, 2025, 4:04 PM IST | Washington
اسرائیل میں تعینات امریکہ کے سفیر مائیک ہاکابی سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ کیا اب بھی فلسطینی ریاست کا قیام امریکی پالیسی کا مقصد ہے، جیسا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے رہا ہے تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا: ’’مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ‘‘
اسرائیل میں تعینات امریکہ کے سفیر نے واضح کیا ہے کہ اب واشنگٹن مکمل طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کوئی ریاست قائم بھی کی جائے تو وہ مغربی کنارے کے بجائے خطے کے کسی اور مقام پر ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مقرر کردہ سفیر مائیک ہاکابی نے خبر رساں ادارے ’بلومبرگ‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ’’جب تک کچھ بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوتیں جو فلسطینی ثقافت کو بدل سکیں، تب تک ریاست کا قیام ممکن نہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلیاں شاید ہماری زندگی میں تو نہیں ہوں گی"۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی فلسطینی ریاست کا قیام امریکی پالیسی کا مقصد ہے، جیسا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے رہا ہے تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا: "مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: تاجروں نے امریکی تجارتی پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیوں کے بارے میں خبردار کیا
فلسطینی ریاست کے ممکنہ محلِ وقوع سے متعلق گفتگو میں ہاکابی نے تجویز دی کہ کسی اسلامی ملک کے ایک حصے کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، بجائے اس کے کہ اسرائیل سے زمین چھینی جائے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یورپی اور عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں سرگرم ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ایلون مسک وہائٹ ہاؤس منشیات لاتے تھے یا نہیں، معلوم نہیں : ٹرمپ
نیویارک میں دو ریاستی حل پر کانفرنس
اقوام متحدہ کی میزبانی میں ۱۷؍ سے۲۰؍ جون کے درمیان نیویارک میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے، جس کی صدارت سعودی عرب اور فرانس مشترکہ طور پر کریں گے۔ اس کانفرنس کے اختتام پر ایک اہم "دستاویز" جاری کی جائے گی، جو فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے "روڈ میپ" کا کردار ادا کرے گی۔ اس منصوبے پر ۸؍ مختلف ورکنگ گروپس نے کام کیا ہے، جنہوں نے مسئلہ فلسطین کے مختلف پہلوؤں پر قابلِ عمل تجاویز تیار کی ہیں۔