• Fri, 12 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: چارلی کرک کے قاتل کا ویڈیو جاری، ٹرمپ نے کہا مشتبہ شخص قبضے میں ہے

Updated: September 12, 2025, 8:15 PM IST | Washington

امریکی حکام نے عوام پر زور دیا کہ وہ انٹرنیٹ پر غیر تصدیق شدہ دعوے شیئر کرنے سے گریز کریں اور اس کے بجائے قابل اعتبار معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کریں۔ تاہم، امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مشتبہ قاتل ہمارے قبضے میں ہے۔

Charlie Kirk. Photo: X
چارلی کرک۔ تصویر: ایکس

چارلی کرک کے قتل میں ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ قاتل کی تلاش کا خاتمہ ہوگیا ہے جس نے ایک گھناؤنا فعل انجام دیا ہے۔ واضح رہے کہ کرک کے قاتل نے بدھ کی شوٹنگ کے بعد ۲۴؍ گھنٹے سے زائد عرصے تک پولیس اور وفاقی ایجنٹوں سے بچنے میں کامیاب رہا۔ تاہم، ٹرمہ نے فاکس نیوز کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ اب وہ ہمارے قبضے میں ہے۔ مشتبہ شخص کی شناخت ۲۲؍ سالہ ٹائلر رابنسن کے نام سے ہوئی ہے۔

امریکی تفتیشی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے جمعرات کو قدامت پسند کارکن چارلی کرک کے قتل کے مشتبہ شخص کی نئی ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے۔ حکام جو قاتل کی ملک بھر میں تلاش کررہے ہیں، نے انٹرنیٹ پر غلط معلومات پھیلانے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ تفتیش کاروں نے جائے وقوع کے قریب ایک طاقتور رائفل کی برآمدگی کی بھی تصدیق کی۔ ہتھیار اور آس پاس کے علاقے سے ڈی این اے ثبوت کی جانچ کی جا رہی ہے۔ پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ ایک بار مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا تو وہ سزائے موت کا مطالبہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: چارلی کرک کی موت، ٹرمپ نے کہا یہ امریکی تاریخ کا سیاہ باب ہے

ایف بی آئی کے ذریعے جاری کی گئی ویڈیو یوٹاہ ویلی یونیورسٹی کے قریب ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس میں مشتبہ شخص کو ایک چھت پر دوڑتے ہوئے اور پھر چھت کے کنارے سے نیچے گر کر قریبی جنگل میں غائب ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حکام نے اسے ”کالج کی عمر کا“ اور امریکی پرچم والی کالی ٹی شرٹ اور ’کونورس‘ جوتے پہننے والا جیسی شناختی تفصیلات بتائی ہیں۔ لوگوں کو اس ضمن میں کارآمد معلومات فراہم کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کے طور پر، ایف بی آئی نے مشتبہ شخص کی گرفتاری میں مدد کرنے والی معلومات فراہم کرنے پر ایک لاکھ ڈالر کی خطیر انعامی رقم کا اعلان کیا ہے۔

فائرنگ کے چند منٹ بعد کی پولیس آڈیو بھی جاری کی گئی ہے اور ایجنٹ عوام کی طرف سے جمع کرائی گئی درجنوں تصاویر اور ویڈیوز کا بھی تجزیہ کر رہے ہیں۔ ایف بی آئی کے ایک ترجمان نے کہا کہ ”یہ ایک منصوبہ بند، پرتشدد کارروائی تھی۔ ہم معلومات رکھنے والے کسی بھی شخص سے فوری طور پر سامنے آنے کی درخواست کرتے ہیں۔“ حکام نے عوام پر زور دیا کہ وہ غیر تصدیق شدہ دعوے شیئر کرنے سے گریز کریں اور اس کے بجائے قابل اعتبار معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کریں۔

یہ بھی پڑھئے: قطر پراسرائیلی حملہ ہر امن پسند ملک کیلئے خطرہ: قطری وزیر اعظم

واضح رہے کہ ۳۱ سالہ کرک، جو دائیں بازو کے نمایاں کارکن اور ’ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے‘ کے بانی تھے، صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کیلئے جانے جاتے تھے۔ انہیں بدھ کو یوٹاہ ویلی یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کی موت نے ریپبلکن حلقوں کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔ پارٹی کے قدامت پسند لیڈران اور تنظیمیں انہیں خراج تحسین پیش کررہی ہیں۔

غلط شناخت سے خوف میں اضافہ

چارلی کرک کے قاتل کی تلاش کے دوران، انٹرنیٹ پر غلط معلومات اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔ صارفین نے ۲ افراد کو مبینہ قاتل کے طور پر شناخت کیا ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ اس جھوٹے الزام کے بعد انہیں ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امریکی ریاست واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی ۲۹ سالہ پیرا لیگل میکائلہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ کرک کے قاتل کے طور پر ان کی تصویر سازشی پوسٹس کے ذریعے پھیلائی گئی ہیں جن میں انہیں حملہ آور کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ”واقعی خوفزدہ“ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے فون ریکارڈز اور بینک ٹرانزیکشنز نے ثابت کردیا ہے کہ حملے کے وقت میں گھر پر ہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں انٹرنیٹ پر ’وچ ہنٹ‘ کیا جا رہا ہے۔“ میکائلہ نے اس سلسلے میں ایف بی آئی سے مدد مانگی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر اسرائیل کا حملہ ، ۳۵؍ افراد جاں بحق

کنیڈا سے تعلق رکھنے والے ۷۷ سالہ ریٹائرڈ بینکر مائیکل مالنسن نے کہا کہ وہ اپنی تصویر کو غلط طور پر اس کیس سے منسلک دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ انہوں نے ہراسانی اور دھمکیوں بھرے پیغامات ملنے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کردیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ میری تصویر ہے، یہ میرا نام ہے، لیکن یہ میں نہیں ہوں۔“

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK