اکتوبر ۲۰۲۳ء میں شروع ہوئے حماس-اسرائیل تنازع کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوا حالانکہ بعد میں ان واقعات میں کمی دیکھنے ملی۔
EPAPER
Updated: October 29, 2025, 10:05 PM IST | Washington
اکتوبر ۲۰۲۳ء میں شروع ہوئے حماس-اسرائیل تنازع کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوا حالانکہ بعد میں ان واقعات میں کمی دیکھنے ملی۔
امریکہ کی تفتیشی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ذریعے جاری کئے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۴ء میں امریکہ بھر میں نفرت انگیز جرائم کے ۱۱٫۶۷۹ واقعات پیش آئے۔ یہ تعداد ۲۰۲۳ء کے ۱۱٫۸۶۲ واقعات سے کم ہے لیکن ۲۰۲۰ء سے پہلے کی سطح سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جرائم کی تعداد میں اضافے کا طویل مدتی رجحان، امریکی جمہوریت کیلئے تشویشناک بنا ہوا ہے۔
۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۴ء کے درمیان، یہودی، مسلم اور سکھ برادریوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق، یہود مخالف نفرت انگیز جرائم میں ۲۶۲ فیصد، اسلام مخالف جرائم میں ۲۰۷ فیصد اور سکھ مخالف جرائم میں ۱۵۴ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں پھیل رہے انتہا پسند اور بالادستی کے نظریات تمام اقلیتی گروپس کو یکساں طور پر خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔
اکتوبر ۲۰۲۳ء میں شروع ہوئے حماس-اسرائیل تنازع کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوا حالانکہ بعد میں ان واقعات میں کمی دیکھنے ملی۔ اس کے باوجود، یہود مخالف حملے جنگ سے پہلے کی سطح سے زیادہ ہیں۔ سکھوں اور ہندوؤں و دیگر برادریوں پر حملوں میں اس عرصے کے دوران کم تبدیلی دیکھی گئی۔
نفرت کی تعریف اور سیاسی تناؤ
یہ اعداد و شمار، نفرت کی تعریف کے تعین کے بارے میں بڑھتے سیاسی تناؤ کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اسرائیل حامی گروپس نے یہود دشمنی کی وسیع تر تعریف کیلئے دباؤ ڈالا ہے جس کے متعلق ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے صیہونیت مخالف یا فلسطین حامی تقریر کو آسانی سے ’نفرت انگیز‘ کا لیبل دیا جاسکے گا۔ اسی طرح، امریکہ میں سرگرم ہندوتوا نظریات کے حامی بعض گروپس بھی ہندوستان کی حکمران نظریے یا وزیر اعظم مودی پر تنقید کو ”ہندوفوبیا“ کے طور پر درجہ بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ یہ کوششیں حقیقی نفرت انگیز جرائم کی رپورٹنگ کو کمزور کر سکتی ہیں اور اقلیتی گروپوں کے درمیان نئی تقسیم کو فروغ دے سکتی ہیں۔
’ہندوز فار ہیومن رائٹس‘ کے شریک بانی راجو راج گوپال سمیت کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو بالادستی کے نظریات کے خلاف متحد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ”تمام تارکین وطن اور اقلیتی برادریاں بالادستی کی سیاست میں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا کر رہی ہیں۔ اس لئے ہماری طاقت یکجہتی میں ہے۔“