خلیل نے امیگریشن عدالت کے فیصلے کو ”کنگارو“ (غیر منصفانہ) عمل قرار دیا۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ، طریقہ کار کے لحاظ سے غلط اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے۔
EPAPER
Updated: September 18, 2025, 9:59 PM IST | Washington
خلیل نے امیگریشن عدالت کے فیصلے کو ”کنگارو“ (غیر منصفانہ) عمل قرار دیا۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ، طریقہ کار کے لحاظ سے غلط اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے۔
امریکی ریاست لوزیانا کے ایک امیگریشن جج نے ۱۲ ستمبر کو فلسطینی حقوق کے کارکن محمود خلیل کو شام یا الجزائر ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خلیل نے اپنے گرین کارڈ کی درخواست میں کچھ معلومات ظاہر نہیں کیں۔ خلیل کے وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ طریقہ کار کے لحاظ سے غلط اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے۔
خلیل نے ایک بیان میں کہا کہ ”یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادئ اظہار کو استعمال کرنے کی وجہ سے مجھ سے بدلہ لے رہی ہے۔“ انہوں نے امیگریشن عدالت کے فیصلے کو ”کنگارو“ (غیر منصفانہ) عمل قرار دیا۔ خلیل کے وکلاء نے زور دیا کہ جن مستقل رہائشیوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور جن کے خاندانی تعلقات مضبوط ہیں، ان کی ملک بدری کے مقدمات میں ان کی درخواستوں کو شاذ و نادر ہی مسترد کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ محمود خلیل امریکہ میں مستقل رہائشی ہیں۔ شام میں پیدا ہونے والے فلسطین نژاد خلیل کولمبیا یونیورسٹی کے سابق گریجویٹ ہیں اور فلسطینی حقوق کیلئے طویل عرصے سے سرگرم ہیں۔ وہ کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور انہوں نے امریکی شہری سے شادی کی ہے، جن کے ساتھ ان کا ایک بچہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: شام اور اسرائیل میں امن معاہدے کیلئے بات چیت مگر گولان کا مستقبل غیر واضح
خلیل نے امیگریشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا
جمعرات کو خلیل کی قانونی ٹیم نے فیڈرل کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا اور نیو جرسی میں ڈسٹرکٹ جج مائیکل فاربیاز کو ایک خط پیش کیا جو خلیل کے شہری حقوق کے مقدمے کی صدارت کر رہے ہیں۔ خط میں دلیل دی گئی کہ امیگریشن جج نے فیصلہ جلد بازی میں سنایا، خلیل کو ثبوت پیش کرنے کیلئے مناسب سماعت سے محروم رکھا اور ان پر ”بہانے“ سے غلط بیانی کا الزام لگایا جو انہیں حراست میں لینے کے بعد لگایا گیا۔
یاد رہے کہ جج فاربیاز اس سے قبل ،ایک بار جون میں خلیل کی ملک بدری کو روک چکے ہیں، انہوں نے فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت کا پہلے کا جواز، جو وزیر خارجہ مارکو روبیو کے اختیار پر مبنی تھا، ممکنہ طور پر غیر آئینی تھا۔ اس ناکامی کے بعد، حکومت نے اپنی حکمت عملی بدل دی اور خلیل پر سابقہ ملازمت اور تنظیموں کی رکنیت ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا غزہ میں مظالم جاری رکھنے کا اعلان
خلیل کے وکلاء کے پاس امیگریشن جج کے حکم کے خلاف بورڈ آف امیگریشن اپیلز میں اپیل کرنے کیلئے ۳۰ دن کا وقت ہے۔ تاہم، فی الحال وفاقی احکامات نے ان کی ملک بدری کو اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ شہری حقوق کا مقدمہ آگے نہیں بڑھتا۔