امریکی میڈیا کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے دس لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس کے بدلے میں لیبیا کو اربوں ڈالر کی منجمد رقم جاری کردی جائے گی۔
EPAPER
Updated: May 17, 2025, 5:01 PM IST | Gaza
امریکی میڈیا کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے دس لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس کے بدلے میں لیبیا کو اربوں ڈالر کی منجمد رقم جاری کردی جائے گی۔
این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے دس لاکھ فلسطینیوں کو مستقل طور پر نکال کر لیبیا منتقل کرنے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ پانچ معلوماتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے اس معاملے پر لیبیائی قیادت سے بات چیت بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، فلسطینیوں کو جلاوطن کرنے کے بدلے میں امریکہ لیبیا کو اربوں ڈالر کی منجمد رقم واپس کرے گا جو کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے امریکہ کے پاس تھی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ایک بار پھر غزہ پر قبضے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے ’’فریڈم زون‘‘ بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقے میں بچانے کیلئے کچھ نہیں بچا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ غزہ میں اب بچانے کیلئے کچھ نہیں بچا ہے‘‘
ٹرمپ نے فروری میں پہلی بار غزہ کے بارے میں اپنا خیال پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اسے دوبارہ تیار کرے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس منصوبے پر عالمی سطح پر تنقید کی گئی، جبکہ فلسطینیوں، عرب ممالک اور اقوام متحدہ نے کہا کہ یہ نسلی صفائی کے مترادف ہوگا۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار باسیم نعیم نے کہا کہ حماس کو فلسطینیوں کو جلاوطن کرنے کے بارے میں کسی بھی بات چیت سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی اپنی زمین سے گہری وابستگی ہے، اور وہ اپنی سرزمین، اپنے خاندانوں اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے کسی بھی قربانی کیلئے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین حامی گریجویشن تقریر، نیویارک یونیورسٹی کا ڈگری دینے سے انکار
واضح رہے کہ غزہ میں بحران اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے، جہاں اسرائیل خوراک اور دیگر ضروریات کی ترسیل کو روکے ہوئے ہے اور نسل کشی کی جنگ میں بمباری کو تیز کردیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط پھیلنے کا خطرہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عام بیماریوں کے علاج کی ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی قیادت زمینی حملے کو مزید شدت دینے کی دھمکی دے رہی ہے۔ فوج امریکی حمایت سے ایک نئی تنظیم کے تحت امدادی سرگرمیوں کو سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبے وسیع ضروریات کو پورا نہیں کریں گے۔ غزہ کے ۲۳؍ لاکھ باشندوں میں سے اکثر بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ اسرائیلی نسل کشی میں تقریباً ۶۴۰۰۰؍ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے۱۱۰۰۰؍لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم آکسفام کی بشری خالدی نے کہا، ’’یہ غزہ پر اسرائیلی جنگ کا سب سے مہلک اور تباہ کن دور ہے، لیکن دنیا نے منہ موڑ لیا ہے۔۱۹؍ ماہ کی خوفناکی کے بعد، غزہ وہ جگہ بن چکی ہے جہاں بین الاقوامی قانون معطل ہے اور انسانیت سے کنارا کشی کر لی گئی ہے۔‘‘