Inquilab Logo Happiest Places to Work

۲۰۲۴ء میں امریکی یونیورسٹیوں میں ریکارڈ ۱۵ لاکھ سے زائد غیر ملکی طلبہ نے داخلہ لیا،۲۵ فیصد ہندوستانی

Updated: June 11, 2025, 7:57 AM IST | Washington

گزشتہ سال امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے ایشیائی طلبہ کی تعداد ۱۱ لاکھ ۳۴ ہزار ۹۵۳ ہے جو کل غیر ملکی طلبہ کا ۷ء۷۱ فیصد ہے۔ ہندوستان سے ۴ لاکھ ۲۲ ہزار ۳۳۵ طلبہ کے ریکارڈز میں ۲۰۲۳ء کے مقابلے ۸ء۱۱ فیصد اضافہ ہوا جبکہ چین سے ۳ لاکھ ۲۹ ہزار ۵۴۱ طلبہ کے ریکارڈ میں ۲۵ء۰ فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

امریکی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں گزشتہ سال غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سال ۲۰۲۴ء میں ۱۵ لاکھ ۸۲ ہزار ۸۰۸ غیر ملکی طلبہ نے امریکی تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا۔ یہ تعداد ۲۰۲۳ء کے مقابلے میں ۳ء۵ فیصد زیادہ ہے۔امریکہ میں داخلہ لینے والے تقریباً ۴ لاکھ ۲۲ ہزار ۳۳۵ طلبہ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں جو غیر ملکی طلبہ کی کل تعداد کا تقریباً ۲۵ فیصد ہیں۔

امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے ذریعے حال ہی میں جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم (ایس ای وی آئی ایس) میں ۲۰۲۴ء کے کیلنڈر سال میں فعال ایف-ون اور ایم-ون طلبہ کی تعداد ۱۵ لاکھ ۸۲ ہزار ۸۰۸ رہی، جس میں گزشتہ سال کے ۱۵ لاکھ ۳ ہزار ۶۴۹ کے مقابلے نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ طلبہ ۲۲۹ سے زائد ممالک اور خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ایشیاء سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سال امریکہ میں داخلہ لینے والے ایشیائی طلبہ کی تعداد ۱۱ لاکھ ۳۴ ہزار ۹۵۳ ہے جو کل غیر ملکی طلبہ کا ۷ء۷۱ فیصد ہے۔ ہندوستانی طلبہ کی ۲۰۲۴ء کی ۴ لاکھ ۲۲ ہزار ۳۳۵ کی تعداد میں ۲۰۲۳ء کے مقابلے ۸ء۱۱ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ چین سے ۳ لاکھ ۲۹ ہزار ۵۴۱ طلبہ کے ریکارڈ میں ۲۵ء۰ فیصد کی معمولی کمی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھئے: ہند نژاد امریکی انجینئر اشوک ایلوسوامی ٹیسلا کے روبوٹ پروجیکٹ کے سربراہ نامزد

امریکہ کی مغربی ریاست کیلیفورنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ، ۲ لاکھ ۳۷ ہزار ۷۶۳ غیر ملکی طلبہ نے داخلہ لیا جبکہ نیویارک کے اداروں میں ایک لاکھ ۷۲ ہزار ۵۲۲ طلبہ نے تعلیم حاصل کی۔ تقریباً ۹۱ فیصد غیر ملکی طلبہ ایس ای وی پی سے تصدیق شدہ ایسوسی ایٹ، بیچلرز، ماسٹرز، یا ڈاکٹریٹ پروگراموں میں زیر تعلیم تھے۔ مجموعی طور پر، ۱۴ لاکھ ۳۴ ہزار ۷۴۸ غیر ملکی طلبہ نے اعلیٰ تعلیم کے ڈگری پروگراموں میں حصہ لیا۔ اس تعداد میں ۲۰۲۳ء کے مقابلے تقریباً ۸۲ ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ غیر ملکی طلبہ کے درمیان بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری پروگرام سب سے زیادہ مقبول رہے، جو اعلیٰ تعلیم کے ۷۹ فیصد ڈگری پروگراموں پر مشتمل ہیں۔ تاہم، غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کے اہل، ایس ای وی پی سے تصدیق شدہ اداروں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی۔ ۲۰۲۳ء میں ۷ ہزار ۶۸۳ اہل اداروں کے مقابلے ۲۰۲۴ء میں ۷ ہزار ۲۳۴ ادارے غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کے اہل قرار پائے۔

۲۰۲۴ء میں عملی تربیت (پریکٹیکل ٹریننگ) کے ذریعے ملازت کا اجازت نامہ حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کے منفرد ایس ای وی آئی ایس ریکارڈز کی کل تعداد ۳ لاکھ ۸۱ ہزار ۱۴۰ رہی۔ اس میں وہ طلبہ شامل نہیں ہیں جو ۲۰۲۴ء میں ملازمت کے ایک سے زائد اجازت نامے رکھتے تھے۔ غیر ملکی طلبہ ایک سال کے دوران ایک سے زائد تربیتی پروگراموں میں حصہ لے سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی گنتی ایک سے زائد بار ہو سکتی ہے۔ عملی تربیت کی مختلف قسموں کیلئے منظور شدہ طلبہ کی تعداد (دہرائے بنا) یوں ہے: اختیاری عملی تربیت (او پی ٹی) - ایک لاکھ ۹۴ ہزار ۵۵۴؛ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ؛ اور ریاضی (اسٹیم STEM) او پی ٹی - ۹۵ ہزار ۳۸۴؛ کرریکلر پریکٹیکل ٹریننگ (سی پی ٹی) - ایک لاکھ ۳۰ ہزار ۵۸۶۔ ۲۰۲۴ء میں اسٹیم او پی ٹی میں حصہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کیلئے ایمیزون، گوگل اور مائیکروسافٹ سرفہرست تین آجروں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: فلپائن نے ہندوستانی سیاحوں کیلئے ویزا فری پالیسی کا اعلان کیا

واضح رہے کہ ہر سال، آئی سی ای کی جانب سے ایس ای وی پی کی سالانہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے جو امریکی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ کے رجحانات کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔ ایس ای وی آئی ایس،  ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کا ویب پر مبنی نظام ہے جسے غیر ملکی طلبہ اور ایکسچینج وزیٹرز کے بارے میں معلومات کو برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طلبہ عارضی طور پر، مکمل کورس آف اسٹڈی یا امریکی محکمہ خارجہ کے نامزد کردہ پروگراموں میں حصہ لینے کیلئے امریکہ آتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK