دنیا بھر میں ۱۵ء۵۸ کروڑ خواتین ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کررہی ہے جبکہ ان مسائل کا سامنا کرنے والے مردوں کی تعداد ۳۹ء۵۱ کروڑ ہے۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 3:12 PM IST | Geneva
دنیا بھر میں ۱۵ء۵۸ کروڑ خواتین ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کررہی ہے جبکہ ان مسائل کا سامنا کرنے والے مردوں کی تعداد ۳۹ء۵۱ کروڑ ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منگل کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ادارے کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اضطراب اور ڈپریشن سب سے زیادہ عام مسائل ہیں، جو ہر عمر، آمدنی اور علاقے کے افراد کو متاثر کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین دماغی صحت سے جڑے مسائل سے سے غیر متناسب طور پر زیادہ متاثر ہیں۔ دنیا بھر میں ۱۵ء۵۸ کروڑ خواتین ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کررہی ہے جبکہ ان مسائل کا سامنا کرنے والے مردوں کی تعداد ۳۹ء۵۱ کروڑ ہے۔ ”ورلڈ مینٹل ہیلتھ ٹوڈے“ کی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ خواتین جو گھریلو تشدد یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، وہ خاص طور پر ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بن سکتی ہیں۔ خواتین میں اضطراب اور ڈپریشن کے معاملات زیادہ پائے جاتے ہیں جبکہ مردوں میں اے ڈی ایچ ڈی، آٹزم اور کنڈکٹ ڈس آرڈرز جیسے مسائل کی تشخیص زیادہ ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نوعمر کی خودکشی: اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی میں پیرنٹ کنٹرول فیچر کا اعلان
خودکشی کے رجحان میں اضافہ
عالمی سطح پر خودکشی سب سے زیادہ تشویشناک رجحان بنا ہوا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں ۷ لاکھ ۲۰ ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کرکے اپنی جان گنوا دی۔ خودکشی نوجوانوں میں موت کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ہر ۱۰۰ اموات میں ایک سے زائد معاملات خودکشی کے ہوتے ہیں۔ مردوں میں خودکشی سے موت کا امکان، خواتین کے مقابلے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر خودکشی سے پہلے اوسطاً ۲۰ سے زائد کوششیں کی جاتی ہیں۔
ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ء تک خودکشی کی شرح کو ایک تہائی کم کرنے کے ’پائیدار ترقیاتی ہدف‘ کو حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر بہتری کی موجودہ رفتار برقرار رہتی ہے تو عالمی سطح پر خودکشی سے ہونے والی اموات میں صرف ۱۲ فیصد کی کمی آئے گی۔
سرمایہ کاری اور قانون سازی میں کمی
انسانی نقصان کے علاوہ، ذہنی صحت کے مسائل کا عالمی اقتصادیات پر سالانہ بوجھ تقریباً ایک کھرب ڈالر ہے، جو زیادہ تر اضطراب اور ڈپریشن کی وجہ سے کم ہوئی پیداواریت کی بدولت ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے، بہتر ذہنی صحت کو فروغ دینے کیلئے حکومتی اخراجات انتہائی کم ہیں، جو کل صحت کے بجٹ کا اوسطاً صرف ۱ء۲ فیصد ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس شرح میں ۲۰۱۷ کے بعد سے کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، زیادہ آمدنی والے ممالک فی شخص، ذہنی صحت کی خدمات پر ۸ء۶۵ ڈالر خرچ کرتے ہیں، جبکہ کم آمدنی والے ممالک صرف ۰۴ء۰ ڈالر خرچ کر پاتے ہیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ سروے میں شامل صرف ۴۵ ممالک میں ذہنی صحت کے تئیں قانون سازی، بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئسس نے ذہنی صحت کو ”عوامی صحت کے سب سے زیادہ دباؤ والے چیلنجز میں سے ایک“ قرار دیا اور حکومتوں پر اس ضمن میں سرمایہ کاری، خدمات اور قانونی اصلاحات کو بڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ذہنی صحت میں سرمایہ کاری کا مطلب افراد، برادریوں اور معیشتوں میں سرمایہ کاری ہے، کوئی بھی ملک ایسی سرمایہ کاری کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔“