بین الاقوامی محنت کش تنظیم (آئی ایل او) اور یونیسیف کی بدھ کو جاری کردہ بچوں سے مشقت کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے ۲۰۱۵ءمیں طے کردہ ۲۰۲۵ءتک بچوں سے مشقت ختم کرنے کے ہدف کے باوجود، اب بھی۱۳؍ کروڑ۸۰؍ لاکھ بچے مشقت میں مصروف ہیں۔
EPAPER
Updated: June 12, 2025, 10:02 PM IST | Geneva
بین الاقوامی محنت کش تنظیم (آئی ایل او) اور یونیسیف کی بدھ کو جاری کردہ بچوں سے مشقت کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے ۲۰۱۵ءمیں طے کردہ ۲۰۲۵ءتک بچوں سے مشقت ختم کرنے کے ہدف کے باوجود، اب بھی۱۳؍ کروڑ۸۰؍ لاکھ بچے مشقت میں مصروف ہیں۔
بین الاقوامی محنت کش تنظیم (آئی ایل او) اور یونیسیف کی بدھ کو جاری کردہ بچوں سے مشقت کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے ۲۰۱۵ءمیں طے کردہ ۲۰۲۵ءتک بچوں سے مشقت ختم کرنے کے ہدف کے باوجود، اب بھی۱۳؍ کروڑ۸۰؍ لاکھ بچے مشقت میں مصروف ہیں۔اگرچہ موجودہ اعداد و شمار ۲۰۰۰ءکے بعد سے مشقت کرنے والے بچوں میں۱۰؍ کروڑ اور ۲۰۲۰ءکے بعد سے ۱۲؍لاکھ کی کمی دکھاتے ہیں، لیکن یہ تعداد بتاتی ہے کہ پیش رفت ناکافی ہے اور سست روی کا شکار ہے۔تاہم، اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، مشقت کرنے والے بچوں میں نمایاں کمی مستقبل کے لیے امید کی علامت ہے اور اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ دنیا کے پاس بچوں سے مشقت ختم کرنے کا ’’منصوبہ‘‘ موجود ہے۔
اگرچہ تمام خطوں میں بچوں سے مشقت میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن یہ سب سہارا افریقہ میں مرتکز ہے جو دنیا بھر میں بچوں سے مشقت کا دو تہائی حصہ رکھتا ہے۔بچوں سے مشقت کی تعریف ایسے کام کے طور پر کی گئی ہے جو بچوں کو ان کا بچپن چھین لیتا ہے اور ان کی صحت اور نشوونما کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔ ۱۳؍ کروڑ۸۰؍ لاکھ بچہ مزدوروں میں سے، ۵۴؍ لاکھ خطرناک کام پر معمور ہیں، جیسے کہ کان کنی ، جو زندگی بھر کی صحت کی پیچیدگیوں، متوقع عمر میں کمی اور غربت کا باعث بنتے ہیں۔مشقت کے نظام میں پھنسے بچوں کو اکثر مالی مجبوریوں کی وجہ سے کم عمری ہی میں سکول سے نکال لیا جاتا ہے،اگر وہ سکول گئے بھی ہوں۔اس طرح وہ تعلیم تک رسائی سے محروم ہو جاتے ہیں، جو نہ صرف ان کے بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے مواقع کو متاثر کرتا ہے، اس طرح غربت اور محرومی کا ایک مصیبت زدہ چکر جاری رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: شمالی آئرلینڈ میں تارکین وطن مخالف فسادات تیسری رات بھی جاری رہے
رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ والدین کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کو بچوں سے مشقت ختم کرنے کی ایک ضروری شرط سمجھتی ہے۔یہ جامع حکمت عملی کی پکار ہے جو اس مسئلے کو تمام پہلوؤںیعنی تعلیمی، معاشی اور سماجی نقطہ نظر سے حل کرے۔آئی ایل او میں بچوں سے مشقت کے افسر بینجمن سمتھ نے اقوام متحدہ کی نیوز کو بتایاکہ آئی ایل او اس (بچوں سے مشقت) کو کافی جامع انداز میں دیکھتا ہے کیونکہ بالغوں کیلئے اچھے کام کرنے کے حالات کو یقینی بنانا بچوں سے مشقت روکنے کیلئے اتنا ہی اہم ہے، کیونکہ غربت ہی درحقیقت بچوں سے مشقت کی جڑ میں ہے۔‘‘تاہم، اقوام متحدہ کی بچوں سے مشقت ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود، مایوس کن اعداد و شمار ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ رپورٹ اس کی وجہ اس مشن کیلئے فنڈ کی کمی کو قرار دیتی ہے۔یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا، ’’عالمی سطح پر فنڈ میں تخفیفمشکل سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو پلٹ دینے کا خطرہ ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بچے کام پر نہیں بلکہ کلاس روم اور کھیل کے میدانوں میں ہوں۔‘‘