`برطانوی سماجیات ڈیوڈ ملر کے مطابق صیہونی ہر طرف سے کھیلتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پوری برطانوی سیاست پر اسرائیل نواز اثرات محیط ہیں، اور برطانیہ کی تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں صیہونیت کی حامی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 19, 2025, 9:06 PM IST | London
`برطانوی سماجیات ڈیوڈ ملر کے مطابق صیہونی ہر طرف سے کھیلتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ پوری برطانوی سیاست پر اسرائیل نواز اثرات محیط ہیں، اور برطانیہ کی تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں صیہونیت کی حامی ہیں۔
برطانوی ماہر سماجیات ڈیوڈ ملر کا دعویٰ ہے کہ صیہونی ہر سیاسی مساوات کے دونوں طرف کھیلتے ہیں، لہٰذا یہ محض انتہائی دائیں بازو تک محدود نہیں ہے۔ برطانیہ کی تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں صیہونیت کی حامی ہیں۔ملر کا کہنا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے اثاثوں (جماعتوں) کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ریفارم پارٹی کی حکومت کو اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریفارم پارٹی کی حکومت موجودہ لیبر حکومت کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف مزید سخت نسل پرستانہ رویہ اپنائے گی۔ برطانوی انتہائی دائیں بازو کی شخصیت ٹامی رابنسن کو اسرائیل کی دعوت، جو کہ برطانیہ میں مسلم مخالف سرگرمیوں اور گلیوں میں ہیجان انگیزی کے لیے بدنام ہے، نے برطانیہ میں زبردست ردعمل پیدا کیا ہے اور اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت اور یورپی انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر ازسرنو نظرثانی کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹیکساس کے گورنر مسلم دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں: امریکی مسلم شہری حقوق گروپ
دریں اثناءتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رابنسن کا سفر اور اس سے وابستہ سیاست ایک گہری نظریاتی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے جو پورے یورپ میں اتحادوں کو ازسر نو ترتیب دے رہا ہے۔رابنسن، جو انگلش ڈیفنس لیگ کے بانی ہیں، گذشتہ اکتوبر میں وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے وزیر برائے امورکے دعوت نامے پر اسرائیل گئے تھے۔اس دورے پر فوری طور پر برطانیہ کے بڑے یہودی اداروں، بشمول یو کے بورڈ آف ڈپٹیز آف برٹش جوز اینڈ دی جویش لیڈرشپ کونسل، نے سخت نکتہ چینی کی، جنہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے رابنسن کو ایک غنڈہ قرار دیا جو برطانیہ کی بدترین نمائندگی کرتا ہے۔بین گوریون ہوائی اڈے سے پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو میں، رابنسن نےاسرائیل کی پڑوسی ریاستوں کو جہادی قرار دیا، اور اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ تجزیہ کاروں کاکے مطابق اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی قیادت یورپی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ تعلقات استوار کر رہی ہے، چاہے یہ گروہ مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف ایسے بیانیے پر مہم چلا رہے ہیں جو اکثر ملکی سطح پر بے امنی کو ہوا دیتے ہیں۔واضح رہے کہ لندن میں حال ہی میں یونائیٹ دی کنگڈم کے نام سے ہونے والے ریلی میں مقررین نے اعلان کیا کہ یورپ میں اسلام کا کوئی مقام نہیں ہے،اس کے علاوہ فلسطین مخالف بیان کے علاوہ اسرائیلی پر چم بھی لہرائے گئے۔ ملر کا استدلال ہے کہ اس موسم گرما میں برطانیہ کے کئی شہروں میں تقریباً ہفتہ بھر جاری رہنے والے فسادات ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہیں جس میں اسرائیل نواز لابی گروپوںنے رابنسن اور دیگر انتہائی دائیں بازو کی شخصیات کو ابھارنے میں کردار ادا کیا ہے تاکہ معاشرتی اور معاشی بد امنی کو مسلمانوں کی طرف موڑا جا سکے۔ملر کے مطابق، اس کا مقصد مزدور طبقے کے غصے کو مسلم مہاجرین کی طرف موڑنا ہے جبکہ مغربی اور اسرائیلی فوجی ایجنڈے کی حمایت کو مضبوط کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’یلو لائن‘ سے آگے علاقوں پر قبضہ کیلئے اسرائیل کی بڑے حملے کی دھمکی
ملر نے مزید کہا کہ ’’ہم غلطی کرتے ہیں اگر ہم سمجھتے ہیں کہ صیہونی، یا دائیں بازو کے صیہونیوں کا، برطانیہ یا یورپ میں نام نہاد انتہائی دائیں بازو سے تعلق ہے۔ درحقیقت، صیہونی ہر سیاسی مساوات کے دونوں طرف کھیلتے ہیں، لہٰذا یہ محض انتہائی دائیں بازو تک محدود نہیں ہے۔ برطانیہ کی تمام مرکزی دھارے کی جماعتیں صیہونیت کی حامی ہیں۔جنہیں اسرائیل کی صیہونی لابی سے ہزاروں، بعض اوقات لاکھوں پاؤنڈ کی امداد ملتی ہے۔ملر کے نزدیک،علاحدہ نیو فاشسٹ انتہائی دائیں بازو کا روایتی تصور اب نافذ نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی انتہائی دائیں بازو نہیں ہے جو صرف ایک بلاک ہو۔ جسے ہم نیو فاشسٹ یا نیو نازی کہتے تھے، وہ ختم ہو چکا ہے۔ اور اس کے ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صیہونیوں نے انتہائی دائیں بازو کی بیشتر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے دائیں جانب موجود بیشتر تنظیمیں مثلاً یوکِپ، ریفارم یوکے، ٹامی رابنسن اور انگلش ڈیفنس لیگ سے نکلنے والے ان کے ساتھی یہ تمام وہ تنظیمیں ہیں جو فلسطین میں صیہونی نوآبادیات کے اثاثے اور ایجنٹ ہیں۔انہیں احساس ہے کہ ان کا پروپیگنڈا کام نہیں کر رہا۔ملر کے مطابق ان صیہونیوں نے ان بناید پرست جماعتوںکو اپنی روش بدلنے پر قائل کیا، تاکہ ان کا نسل پرستی اور مہم چلانے کا بنیادی ہدف اسلام اور مسلمان بن جائیں۔جس کے سبب یہ جہاد مخالف اتحاد کے تحت ایک بین الاقوامی نیٹ ورک میں تبدیل ہو گیا ہے، اور اسے، بلاشبہ، بڑی حد تک صیہونی تحریک کی طرف سے فنڈ کیا جاتا ہے ۔ اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس فنڈنگ کے مستفیدین میں لیبر سے لے کر نائجل فرایج کی ریفارم یوکے پارٹی تک شامل ہیں۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے اثاثوں (جماعتوں) کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ریفارم پارٹی کی حکومت کو موقع پر اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریفارم پارٹی کی حکومت موجودہ لیبر حکومت کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف مزید نسل پرستانہ رویہ اپنائے گی۔نیتن یاہو کے دور میں، اسرائیل نے یورپی قوم پرست حکومتوں ، وکٹر اوربن کے ہنگری سے لے کر جارجیا میلونی کے اٹلی تک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فرانسسکا البانیز نے غزہ کے متعلق خدشات کو فرانسیسی پارلیمنٹ میں پیش کیا
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی صیہونی اور اسلاموفوبک تحریکوں کے انضمام کی عکاسی کرتی ہے –،جنہیں کبھی ایک دوسرے کے مخالف سمجھا جاتا تھا۔ملر نے کہا کہ پوری دنیا میں اب کوئی بھی اسرائیل کو پسند نہیں کرتا، لہٰذا انہیں احساس ہے کہ ان کا پروپیگنڈا کام نہیں کر رہا، اور ان کے اپنے جائزوں کے مطابق صرف ایک چیز کام کرتی ہے، اور وہ ہے مسلمانوں سے نفرت۔ اسی لیے وہ مسلمانوں سے نفرت کو موجودہ اور عصر حاضر کے صیہونی پروپیگنڈے کا مرکزی نکتہ بنا رہے ہیں۔