• Wed, 17 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

۱۹۲۰ء سے اقلیتی برادری مشکلات کا شکار: تھروپارن کنڈرم درگاہ کا موقف

Updated: December 16, 2025, 8:07 PM IST | Chennai

مدراس ہائی کورٹ کی مدورئی بنچ میں تھروپارن کنڈرم پہاڑی پر چراغ جلانے کے معاملے پر سماعت کے دوران حضرت سلطان سکندر بادشاہ اولیاء درگاہ نے واحد جج کے حکم کو چیلنج کیا۔ درگاہ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ۱۹۲۰ءمیں دی گئی زمین پر اقلیتی برادری کو پُرامن طور پر اپنے حقوق استعمال کرنے میں مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق حضرت سلطان سکندر بادشاہ اولیاء درگاہ نے تھروپارن کنڈرم پہاڑیوں میں ایک پتھریلے ستون پر چراغ جلانے کی ہدایت دینے والے واحد جج کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے پیر کو مدراس ہائی کورٹ کی مدورئی بنچ کو بتایا کہ اقلیتی برادری کو۱۹۲۰ء میں دی گئی زمین سے پُرامن طور پر فائدہ اٹھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ درگاہ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ ٹی موہن نے کہا، ’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ اقلیتی برادری کو۱۹۲۰ء میں دی گئی اپنی زمین سے لطف اندوز ہونے کیلئے اتنی مشکلات اٹھانی پڑیں اور ہر مرحلے پر ہمیں ان کی دراندازیوں کے خلاف خنجر سونت کر اپنا دفاع کرنا پڑے۔ ‘‘حال ہی میں، تمل ناڈو حکومت کے فیکٹ چیکر نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ تھروپارن کنڈرم پہاڑی پر واقع ایک ہندو مندر کو درگاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا، اور واضح کیا کہ ستونوں کی مندرانہ طرزِ تعمیر سے مشابہت پر مبنی یہ دعوے غلط ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: سائی جادھو نے تاریخ رقم کی، آئی ایم اے سے کامیاب ہونے والی پہلی خاتون افسر

جسٹس جی جے جیاچندرن اور جسٹس کے کے رام کرشنن پر مشتمل ڈویژن بنچ درگاہ انتظامیہ کی جانب سے دائر کردہ اپیلوں سمیت متعدد اپیلوں کی سماعت کر رہی تھی جن میں اس واحد جج کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا جس میں پہاڑی پر ایک پتھریلے ستون (دیپاتھون) پر چراغ جلانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ واحد جج نے یہ قرار دیا تھا کہ یہ ستون درگاہ کی زمین سے باہر واقع ہے اور چراغ جلانے سے مسلم برادری کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ ریاستی حکومت نے بھی واحد جج کے۴؍ دسمبر کے اس حکم کے خلاف اپیل دائر کی ہے جس میں توہینِ عدالت کی درخواست میں ضابطۂ فوجداری کی دفعہ ۱۴۴؍ کے تحت نافذ امتناعی احکامات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اپیلوں کا ایک اور مجموعہ۹؍ دسمبر کے اس حکم کو چیلنج کرتا ہے جس میں چیف سیکریٹری، اے ڈی جی پی، ڈی سی پی اور مرکزی ہوم سیکریٹری سمیت سینئر حکام کی ذاتی حاضری کا حکم دیا گیا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: بہار: مسلمان دکاندار پر حملہ کرنے کے الزام میں آٹھ افراد گرفتار

درگاہ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ ٹی موہن نے دلیل دی کہ اس سے قبل عدالتی احکامات، خاص طور پر پہاڑیوں پر جانوروں کی قربانی پر پابندی کے حکم نے، درگاہ کی زمین پر بنیادی سہولیات جیسے بیت الخلاء، بجلی اور پانی کی فراہمی کو بھی محدود کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیلّی تھوپے کے علاقے میں، جو درگاہ کی ملکیت ہے، عبادات کو بھی اس بنیاد پر محدود کر دیا گیا کہ اس سے کاشی وشوناتھ مندر میں آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد متاثر ہو سکتی ہے۔ موہن نے عرض کیا، ’’یہ درست نہیں کہ اقلیتی برادری کو بار بار۱۹۲۰ء میں دی گئی زمین سے استفادہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، اور ہر مرحلے پر تجاوزات کے خلاف دفاع کرنا پڑے۔ ‘‘انہوں نے خبردار کیا کہ بڑھتی ہوئی بھیڑ بالآخر درگاہ تک جانے والے راستوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ 
انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ درگاہ کو ابتدا میں فریق نہیں بنایا گیا تھا اور بعد میں اسے شامل تو کیا گیا مگر اپنا مؤقف پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ اگرچہ بنچ نے عندیہ دیا کہ وہ طریقۂ کار سے متعلق امور پر غور نہیں کر رہی، موہن نے دلیل دی کہ طریقۂ کار میں ناانصافی بذاتِ خود حکم کو کالعدم بنا سکتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ رِٹ قواعد کے تحت جواب دہندگان کو جوابی حلف نامہ داخل کرنے کیلئے۸؍ہفتے دیئے جاتے ہیں، واحد جج نے درگاہ کو صرف تین دن دیئے، اور یہ اختیار ڈائری آرڈر میں بھی درج نہیں تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: تقرری نامہ دیتے وقت خاتون ڈاکٹر کا حجاب کھینچنے پرنتیش کیخلاف برہمی، استعفیٰ کی مانگ

موہن نے مزید الزام لگایا کہ قابلِ سماعت ہونے (maintainability) سے متعلق اعتراضات نہ سنے گئے اور نہ ہی ریکارڈ پر لائے گئے، اور یہ کہ کارروائی کے دوران انہیں ویڈیو کانفرنسنگ سے بھی منقطع کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ واحد جج نے ایک سائٹ وزٹ بھی کیا اور فریقین کو شرکت کی دعوت دی، اس دن جب درگاہ مقدمے کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ان کے مطابق، جج نے ایک بالکل نیا مقدمہ قائم کیا جو کسی فریق کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا تھا اور یہ تاثر دیا کہ درگاہ زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کی موہن نے سختی سے تردید کی۔ انہوں نے کہا، ’’آپ کسی کمزور درخواست کو کسی اور کی عرضداشت سے سہارا لے کر برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یہ بعد از وقت جواز تراشی کے مترادف ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: ملک گیر ایس آئی آر غیر آئینی ہے،صرف حلقہ کی حدتک اس کی اجازت ہےوہ بھی تحریری وجہ کے ساتھ

انہوں نے مزید کہا کہ ۱۵؍ یا۲۰؍ میٹر کے فاصلے سے متعلق تنازعات غیر اہم ہیں، جبکہ اصل مسئلہ مالکانہ حقوق کا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ محض جذباتی دلچسپی کی بنیاد پر رِٹ درخواستوں کی اجازت دینے سے عدالتوں میں اس طرح کے دعوؤں کا سیلاب آ جائے گا۔ چراغ جلانے کی مخالفت کو ’’ذاتی مفادات‘‘ سے جوڑنے والے تبصروں پر اعتراض کرتے ہوئے موہن نے کہا کہ درخواست گزار نے اپنے حلف نامے میں ہندو مکل کچی سے وابستگی ظاہر نہیں کی، جو بعد میں اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے سامنے آئی۔ انہوں نے زور دیا کہ مدورئی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی تاریخی طور پر برقرار رہی ہے اور بیرونی عناصر کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موہن نے یہ بھی دلیل دی کہ رسم و رواج سے متعلق دعوے سول کورٹ میں ثابت کئےجانے چاہئیں، جیسا کہ سابقہ فیصلوں میں قرار دیا گیا ہے۔ 
انہوں نے کہا، ’’جب میری برادری کسی رواج کا دعویٰ کرتی ہے تو ہمیں سول کورٹ بھیجا جاتا ہے۔ جب دوسرے رواج کا دعویٰ کرتے ہیں تو رِٹ کورٹ ہدایات جاری کر دیتی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: کہرے کا قہر، دہلی میں ۸۰؍ سے زائد پروازیں منسوخ

دریں اثنا، ایچ آر اینڈ سی ای (ہندو مذہبی و فلاحی اوقاف) محکمہ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ آر شونمگاسندرم نے عدالت کو بتایا کہ کمشنر عقیدت مندوں کی نمائندگیوں پر غور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ادھر، چراغ جلانے کی مخالفت کرنے والے فریقین کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ اے کے سری رام نے دلیل دی کہ واحد جج نے مندر کے ایگزیکٹو آفیسر کے حکم کے میرٹ کا جائزہ نہیں لیا اور اسے غلط طور پر دائرۂ اختیار کی کمی کی بنیاد پر مسترد کر دیا، حالانکہ مندر کا ٹرسٹ بورڈ، جس کا فیصلہ مرکزی حیثیت رکھتا تھا، فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ سری رام نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں نے یہ واضح نہیں کیا کہ چراغ جلانے کی روایت کب شروع ہوئی، اور یہ کہ۲۰۱۳ء میں مندر کے استھانیکروں سے حاصل کی گئی ماہر آراء کے مطابق اُچی پلّیار مندر میں چراغ جلانا آگموں کے مطابق تھا۔ انہوں نے کہا کہ ماہر رائے پر انحصار سے متعلق سپریم کورٹ کے نظائر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اکھلیش کا طنز، یوگی سرکار’ ایس آئی آر‘ میں اپنی مرضی کے مطابق ’جگاڑ‘ نہیں کرپائی

ایچ آر اینڈ سی ای کے جوائنٹ کمشنر کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈووکیٹ این جوتھی نے تمل ناڈو ٹیمپل انٹری آتھرائزیشن ایکٹ کی دفعہ ۴؍کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرسٹیوں کے اختیارات پر زور دیا۔ ۱۹۸۱ء اور اس سے پہلے کے علمی کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پتھریلے ستون تاریخی طور پر جوگیوں (دیگمبروں ) کے ذریعے روشنی کیلئے استعمال ہوتے تھے، نہ کہ کارتھگئی دیپم کیلئے۔ ان کے مطابق، ان کی نوعیت میں کوئی بھی تبدیلی قانونی تحفظات کی خلاف ورزی ہوگی۔ جوتھی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزاروں نے مندر حکام کو نمائندگی دینے کے اسی دن ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا، جس سے انتظامیہ کو غور کرنے کا کوئی موقع نہیں ملا۔ انہوں نے زور دیا کہ محکمہ کو سیکولر رہنا چاہئے اور مختلف مذہبی روایات کا انتظام کرنا چاہئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ماہانہ ۴۵؍ ہزار روپے وظیفہ ملتا ہے اسلئے ایک ہی گھر کے پانچ پانچ لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں: اجیت پوار

درگاہ کے ایک اور وکیل نے اس بات کا اعادہ کیا کہ واحد جج نے غلط طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ درگاہ متاثر نہیں ہوگی، اور ’’درگاہ کیمپس‘‘ کے تصور پر تنقید کی، جو کسی قانونی تعریف کا حامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکیت اور رسم و رواج سے متعلق تنازعات کیلئے سول عدالت میں باقاعدہ سماعت، کمشنروں کی تقرری اور ماہر شواہد درکار ہوتے ہیں، نہ کہ رِٹ کارروائی کے ذریعے فیصلہ۔ اگرچہ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ عدالتی سائٹ انسپیکشن کی اجازت ہے، اس نے اس بات میں دلچسپی ظاہر کی کہ حدود کی واضح نشاندہی کے ذریعے کوئی دیرپا حل نکالا جائے تاکہ بار بار تنازعات سے بچا جا سکے۔ تاہم، درگاہ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اس نوعیت کے اعلانات رِٹ دائرۂ اختیار میں نہیں دیئے جا سکتے اور صدیوں سے موجود نہ ہونے والی روایات کو زبردستی نافذ کرنے کے خلاف خبردار کیا۔ عدالت نے تھروپارکنڈرم کے کثیرالثقافتی کردار کو اجاگر کرنے والی گذارشات پر بھی غور کیا اور سوال کیا کہ آیا آثارِ قدیمہ کے محکمے (اے ایس آئی) کی جانب سے اجازت نامہ اس معاملے کو حل کر سکتا ہے۔ وکلا نے جواب دیا کہ ایسی کسی بھی کارروائی کو سختی سے قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK