Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایئرانڈیا حادثہ: منیشا نے جھلس کراپنے۸؍ ماہ کے بیٹے کو بچایا، اب دونوں صحت یاب

Updated: July 29, 2025, 3:11 PM IST | Ahmedabad

منیشا کچھاڈیا نے ۱۲؍ جون کو احمد آباد میں بی جے میڈیکل کالج کی رہائشی عمارتوں پر ایئر انڈیا کی پروازآئی سی ۱۷۱؍کے گرنے کے وقت اپنے آٹھ ماہ کے بیٹےدھیانش کو اپنی جان پر کھیل کر بچایا۔

An Air India plane crashed in Ahmedabad on June 12. Photo: INN.
۱۲؍ جون کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کا طیارہ کریش ہوگیا تھا۔ تصویر: آئی این این۔

منیشا کچھاڈیا نے ۱۲؍ جون کو احمد آباد میں بی جے میڈیکل کالج کی رہائشی عمارتوں پر ایئر انڈیا کی پروازآئی سی ۱۷۱؍کے گرنے کے وقت اپنے آٹھ ماہ کے بیٹےدھیانش کو اپنی جان پر کھیل کر بچایا۔ اس حادثے میں ۲۶۰؍ افراد ہلاک ہو گئے۔ خوفناک گرمی اور گھنے دھوئیں کے باوجود منیشا کا واحد مقصد اپنے شیر خوار بچے کو بچانا تھا جو اس سانحے کا سب سے کم عمر زندہ بچنے والا فرد نکلا۔ منیشا نے نہ صرف دھیانش کو آگ کی لپیٹ میں آ کر اپنی بانہوں سے ڈھانپ لیا بلکہ بعد میں جب دونوں کو شدید جھلسنے کے بعد علاج کی ضرورت پڑی تو ماں نے اپنے جسم کی جلد اپنے بچے کو دی تاکہ اس کے زخم بھر سکیں۔ اس طیارہ حادثے سے زندہ بچنے کی یہ دردناک اور متاثر کن کہانی گزشتہ ہفتے اس وقت ایک خوشگوار موڑ پر پہنچی جب ماں اور بیٹا اسپتال سے صحتیاب ہو کر گھر لوٹے۔ 

یہ بھی پڑھئے: پہلگام حملہ پر چدمبرم کا چبھتا ہوا سوال

دھیانش، منیشا اور کپل کچھاڈیا کا بیٹا ہے۔ کپل بی جے میڈیکل کالج میں یورولوجی کے ایم سی ایچ کورس کے طالبعلم ہیں اور حادثے کے وقت وہ اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود تھے۔ کپل نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ حادثے کے وقت منیشا زخمی ہوئیں، مگر ان کی اولین ترجیح اپنے بیٹے کی جان بچانا تھی۔ منیشا نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا:’’ایک لمحے کیلئے اندھیرا چھا گیا اور پھر ہمارے گھر کو آگ نے گھیر لیا۔ ‘‘اسی خوفناک لمحے میں، منیشا نے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگیں۔ آگ اور دھوئیں نے کچھ دیکھنا محال کر دیا تھا جبکہ شدید گرمی نے ماں بیٹے دونوں کو بری طرح جھلسا دیا۔ منیشا نے مزید کہا کہ ’’ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب لگا کہ ہم نہیں بچ پائیں گے۔ لیکن میں نے طے کر لیا تھا کہ مجھے اپنے بچے کیلئے باہر نکلنا ہی ہوگا۔ ہم دونوں نے ایسا درد سہا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 
منیشا کے چہرے اور ہاتھوں پر ۲۵؍ فیصد جھلسنے کے زخم آئےجبکہ دھیانش کے چہرے، دونوں بازوؤں، سینے اور پیٹ پر۳۶؍ فیصد جلنے کے زخم تھے۔ دونوں کو فوری طور پر کے ڈی اسپتال منتقل کیا گیاجہاں دھیانش کو بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ (PICU) میں داخل کیا گیا۔ اسے سانس لینے کیلئے وینٹی لیٹر پر رکھا گیاسیال مادے، خون کی منتقلی، اور انتہائی پیچیدہ نگہداشت کی ضرورت تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: آپریشن سیندور پر سرکار کو ایوان میں سخت سوالوں کا سامنا

ماں نے اپنی جلد دے کر بیٹے کو بچایا
ڈاکٹروں کے مطابق، بچے کا علاج عمر کی وجہ سے نہایت حساس اور پیچیدہ تھا۔ جب زخموں کو بھرنےکیلئے جلد کی ضرورت پڑی، تو منیشا نے اپنی جلد اپنے بیٹے کو عطیہ کی — وہ ایک بار پھر اس کیلئے ڈھال بن گئیں۔ کے ڈی اسپتال کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر آدیت دیسائی نے اس کیس کو نہایت متاثر کن قرار دیا۔ انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ’’یہ کیس نہایت جذباتی تھا۔ ماں کی ہمت نے سب کو متاثر کیا۔ طبی نقطۂ نظر سے ہر شعبے نے مل کر بہترین علاج فراہم کیا۔ ‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ حادثے سے متاثرہ چھ مریضوں کا علاج اسپتال نے مفت کیا۔ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر رُتویج پاریکھ نے اخبار کو بتایا کہ بچے کے زخموں کا علاج نہایت احتیاط سے کیا گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’بچے کی اپنی جلد کے ساتھ اس کی ماں کی جلد کے گرافٹس بھی استعمال کئے گئے۔ اس کی عمر ایک بڑا مسئلہ تھا۔ ہمیں انفیکشن سے بچانا تھا اور یہ بھی یقینی بنانا تھا کہ اس کی نشوونما متاثر نہ ہو۔ خوش قسمتی سے بچہ اور ماں دونوں کی حالت تسلی بخش رہی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہائی کورٹ کا خاطی افسران کیخلاف سخت کارروائی کا حکم

والد کی بھی اہم شراکت
کپل، جو خود میڈیکل پروفیشنل ہیں، نے بھی اپنے بیٹے کے علاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر پاریکھ کے مطابق، بطو ر والد اور میڈیکل پروفیشنل، ڈاکٹر کپل نے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ رات کے وقت بھی خود زخموں کی پٹیاں تبدیل کرتے تاکہ کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ علاج کرنے والی ٹیم میں ڈاکٹر سنیہل پٹیل، ڈاکٹر تشار پٹیل اور ڈاکٹر مانسی ڈنڈنائک شامل تھے۔ بچے کی حالت اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب حادثے کے سبب اس کے ایک پھیپھڑے میں خون جمع ہو گیا۔ ڈاکٹر سنیہل پٹیل نے بتایا:’’ہم نے اسے وینٹی لیٹر پر رکھا اور سینے میں ایک ڈرینج ٹیوب ڈالی گئی تاکہ پھیپھڑے دوبارہ پھیل سکیں۔ ‘‘پانچ ہفتے کی بھرپور طبی دیکھ بھال کے بعد منیشا اور دھیانش اب اسپتال سے صحتیاب ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ یہ ایک ماں کی بے مثال محبت کی داستان ہے جو آگ اور تقدیر دونوں سے لڑ گئی صرف اپنے بچے کو بچانے کیلئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK