ممبئی ہائی کورٹ نے `آپریشن سندور پر ایموجی ری ایکشن کے باعث پونے کی معلمہ کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کرنے سے انکار کر دیا۔
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 2:36 PM IST | Pune
ممبئی ہائی کورٹ نے `آپریشن سندور پر ایموجی ری ایکشن کے باعث پونے کی معلمہ کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کرنے سے انکار کر دیا۔
ممبئی ہائی کورٹ نے منگل کے روز پونے کی ایک معلمہ کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کرنے سے انکار کر دیا جس پر الزام تھا کہ اس نے `آپریشن سندور کی تعریف کرنے والے پیغامات پر `ہنسنے والا ایموجی استعمال کیا اور واٹس ایپ ا سٹیٹس پر ہندوستانی قومی پرچم جلتے ہوئے اور وزیراعظم نریندر مودی کو راکٹ پر بیٹھے دکھانے والی ویڈیوز شیئر کیں۔ جسٹس اجے گڑکری اور جسٹس راجیش پاٹل کی ڈویژن بینچ نے فیصلہ دیا کہ ایسے اقدامات ہندوستان کی خودمختاری، سالمیت اور وحدت کو خطرے میں ڈالنے اور گروہوں کے درمیان دشمنی پھیلانے سے متعلق قوانین کی زد میں آئیں گے۔ پیشے کے اعتبار سے ۴۶؍ سالہ معلمہ فرح دیبا پر تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب اس نے اپنے ہاؤسنگ سوسائٹی کے واٹس ایپ گروپ میں `آپریشن سندور کی تعریف کرنے والے پیغامات پر `ہنسنے والے ایموجی کے ردعمل کا اظہار کیا۔ اس عمل پر دیگر رہائشیوں کی شدید تنقید ہوئی اور قانونی چارہ جوئی شروع ہوگئی۔
ایف آئی آر خارج کرنے سے انکار کرتے ہوئے ممبئی ہائی کورٹ نے کہا کہ معلمہ کے اقدامات معمولی نوعیت کے نہیں تھے۔ بینچ نے واضح کیاکہ ’’ہمارے خیال میں، درخواست گزار کے اعمال بی این ایس کی دفعہ۱۵۲؍ (ہندوستان کی خودمختاری، وحدت اور سالمیت کو خطرہ)،۱۹۶؍ (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی پھیلانا)، ۱۹۷؍(قومی یکجہتی کے خلاف بیانات)،۳۵۲؍ (امن خراب کرنے کی نیت سے جان بوجھ کر توہین) اور۳۵۳؍ (عوامی فساد کا باعث بننے والے بیانات) کے تحت قابلِ سماعت ہیں۔‘‘ عدالت نے زور دیا کہ موجودہ سماجی سیاسی ماحول میں ایسے اقدامات افرادی نہیںدیکھے جا سکتے اور نہ ہی محض ذاتی رائے کا اظہار سمجھے جا سکتے ہیں، یہ بادی النظر میں عوامی امن اور ہم آہنگی کو خراب کرتے ہیں۔ ‘‘
بینچ نے کہا’’یہ خود درخواست گزار کے مجرمانہ ارادے کی نشاندہی کرتا ہے‘‘،اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ درخواست گزار نے خود تسلیم کیا تھا کہ اس کے والدین اور ننھیال کا تعلق پاکستان سے ہے، اور اس نے مدعی سے بات چیت میں ملک کو `مکّار (عیار) کہا تھا۔ اگرچہ درخواست گزار نے بعد میں معافی مانگ لی، لیکن عدالت نے کہا کہ ’’ناقابلِ تلافی نقصان‘‘ہو چکا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا، ’’درخواست گزار کے پیغام کے بعد مقامی علاقوں میں ہونے والی بے چینی تصاویر سے واضح ہے، جن میں دکھایا گیا ہے کہ عوام کے گروہ پولیس اسٹیشن پہنچے تھے۔‘‘ بینچ نے درخواست گزار کے ایم اے انگلش اور بی ایڈ کی تعلیمی قابلیت اور اس کے ذہنی تکلیف کا دعویٰ بھی نوٹ کیا۔ لیکن ججوں نے یہ دفاع مسترد کرتے ہوئے کہا:’’ایک سمجھدار فرد سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی پیغام شیئر کرنے سے پہلے، درخواست گزار جیسی تعلیم یافتہ اور پیشے سے معلمہ کو اس کے ممکنہ نتائج پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔‘‘ بینچ نے مزید کہا’’ان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب ہندوستانی فوج نے `آپریشن سندور کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ لہٰذا، ان کے بیان اور ان کی ذاتی واٹس ایپ ا سٹیٹس نے عوام کے جذبات بھڑکائے اور لوگوں کے پولیس اسٹیشن پہنچ کر نعرے لگانے اور دھرنا دینے کا شدید امکان پیدا کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: آپریشن سیندور پر بحث مکمل مگر بے اطمینانی برقرار
ججوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اشرف خان نصرت خان بمقابلہ ریاست یو پی کا حوالہ دیتے ہوئے دہرایا کہ ’’آئین کے تحت دی جانے والی آزادیِ اظہار کا دائرہ ایسے اقدامات تک نہیں پہنچتا جو اعلیٰ عہدیداروں کی توہین کریں اور شہریوں میں اختلاف پیدا کریں۔‘‘ عدالت نے کہا’’آزادیِ اظہار کے نام پر سوشل میڈیا کا غلط استعمال بعض گروہوں میں فیشن بن چکا ہے، ایسے اقدامات قومی اتحاد اور عوامی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘‘