Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیلیفورنیا: امریکی فنکار نے بامبے بیچ پرغزہ کے بچوں کیلئے منفرد یادگار بنائی

Updated: June 23, 2025, 4:11 PM IST | California

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ویران بستی بامبے بیچ، جو کبھی ایک مشہور سیاحتی مقام تھا، اب زوال کے بعد فنکاروں کی ایک پناہ گاہ بن چکی ہے۔ یہاں ۲۰۲۴ءمیں امریکی فنکار بیھن سمارہ نے غزہ میں مارے گئے بچوں کی یاد میں ایک منفرد یادگار قائم کی۔ یہ یادگار جو ہزاروں گڑھوں پر مشتمل ہے ، ہر ایک گڑھاغزہ میں قتل ہونے والے ایک بچے کی نمائندگی کرتا ہے۔

Each crater represents a child killed in Gaza. Photo: X.
ہر ایک گڑھا غزہ میں ہلاک ہونے والے ایک بچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ تصویر: ایکس۔

کیلیفورنیا کے سنسان صحرا میں چھپی ہوئی ایک جگہ، بامبے بیچ(Bombay Beach)، امریکہ کی سب سے نچلی سطح پر آباد بستی ہونے کا منفرد اعزاز رکھتی ہے ۔ یہ سطحِ سمندر سے ۶۸؍میٹر نیچے ہے۔ کبھی یہ جھیل کنارے کا ایک پرکشش سیاحتی مقام تھا، جہاں فرینک سناترا جیسے مشہور ستارے آتے تھے، مگر ۱۹۷۰ءکی دہائی تک یہ  ماحولیاتی انحطاط اور صنعتی غفلت کے زوال کا شکار ہو گیا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بامبے بیچ نے نئی زندگی پائی ہے ۔ یہ ایسے فنکاروں کی پناہ گاہ بن گئی ہے جو مرکزی دھارے سے ہٹ کر تخلیق کرتے ہیں۔ ۲۰۱۸ءسے یہ ایک تخلیقی برادری کا گھر بن چکا ہے۔ انہی میں ایک فنکار بیھن سمارہ (Behn Samareh) بھی ہیں، جنہوں نے ۲۰۲۴ءمیں غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی یاد میں ایک یادگار پر کام شروع کیا۔ ان کا یہ منصوبہ TRT World کی دستاویزی فلم Echoes of Innocence کا موضوع بنا، جس کا پریمیئر۱۳؍ اپریل کو اور وہ بھی بومبے بیچ میں ہی ہوا۔ 

 
 
 
 
 
View this post on Instagram
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Behn Samareh (@behnsamareh)

بربادی سے باغی فن کا مرکز
اس مقام کا انتخاب محض اتفاق نہیں تھا۔ بامبے بیچ اب ایک بینال (دو سالہ فن میلہ) کی میزبانی کرتا ہے جسے اس کی سرکاری ویب سائٹ پر یوں بیان کیا گیا ہے:’’یہ فن، موسیقی، اور فلسفے کا ایک باغیانہ جشن ہے، جو مغربی تہذیب کی آخری سرحد سالٹن سی کے کنارے پر منعقد ہوتا ہے۔ ‘‘بینال کے علاوہ، یہاں سال بھر چھوٹے چھوٹے ثقافتی پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں، اور ایک `مستقل مجموعہ بھی جھیل کے کنارے موجود ہے۔ ان مجموعوں میں پرانی اور ضائع شدہ اشیاء سے بنائی گئی مجسمہ سازی، جن میں امریکہ کی پہچان بنے پرانے کاریں بھی شامل ہیں۔ اسی ماحول میں ’’ایکوز آف انوسینس‘‘کی نمائش ہوئی کھلے آسمان تلے، زنگ آلود باقیات کے درمیان، ایک ایسی برادری کے بیچ جو اب اس جگہ کو اپنا گھر کہتی ہے۔ فلم کی نمائش سے پہلے مقامی پادری جیک پارکر نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ سمارہ کا’’محبت بھرا کام‘‘ ہے، ایک ایسے شخص کی ذاتی جدوجہد، جو ایک بے معنی تباہی کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: پنٹاگون پیزا تھیوری: جب ایک پیزا آرڈر جنگ کی پیش گوئی یا اشارہ بن جائے!

اپنے امریکی انداز میں انہوں نے کہا، ’’یہ فلم ایک آدمی کی جدوجہد ہے اپنی آواز پانے کی ایک ایسے وقت میں جب سب جگہ اندھیرا ہےاور فوراً بعد گفتگو کا رخ غزہ کی طرف موڑ دیا گیا: ’’کسی بھی ردعمل کی ابتدا وہاں کے بچوں سے ہونی چاہئے۔ ‘‘فلم کے سنیماٹوگرافر کرشات یورسن (Kursat Uresin) نےبامبے بیچ کو اس یادگار کیلئے ایک بہترین جگہ کہا:’’یہ دنیا کے اختتام جیسا لگتا ہے، جیسے میڈ میکس کی کوئی فلم، جیسے قیامت۔ ‘‘وہ کہتے ہیں، ’’جب میں یہ فلم بنا رہا تھا، مجھے لگا ہر منظر کے دو مطلب ہیں۔ جیسے جیسے غزہ کا قتل عام جاری ہے، ویسے ویسے یہ سب کچھ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہماری وہ دنیا اب ختم ہو چکی ہے۔ ‘‘ان کی گہری، شاعرانہ تصویریں اس ویران منظرنامے کی عکاسی کرتی ہیں، جو فلم کے درد سے ہم آہنگ ہیں۔ یہی گہرائی پروڈیوسر اصلحان اکر چاکماک (Aslihan Eker Cakmak) کو اس منصوبے کی جانب کھینچ لائی۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ: بھوک سے فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ: انروا

فلسطینی کہانیوں پر کام کرنے والی اس تجربہ کار فلم ساز کو جب سمارہ کا ابتدائی کام دکھایا گیا، تو وہ چونک اٹھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں فوراً (ڈائریکٹر) انصار التائے کو فون کر کے بولی، ہمیں یہ فلم بنانی ہے۔ فلم کا آغازبامبے بیچ کے ایک پراسرار منظر سے ہوتا ہے: ایک نقاب پوش کردار، شفاف کپڑے کے پیچھے جھانکتا ہوا۔ یہ ابتدا ہی میں ماحول کا تعین کر دیتی ہے بامبے بیچ گویا ایک اسٹیج ہے، جہاں ہر منظر کسی مظاہرے کی مانند لگتا ہے۔ پھر روشنی کے ساتھ فلم کا مرکز بدلتا ہے، سمارہ کی یادگار، جو ہزاروں گڑھوں پر مشتمل ہے۔ ہر ایک گڑھاغزہ میں قتل ہونے والے ایک بچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ 
غم اور خاک میں گندھی ہوئی یادگار
سمارہ کیلئے، بامبے بیچ ’’آزادی اور فن کی جگہ‘‘ ہے۔ ایک فقرہ جو امریکی خواب کی عکاسی کرتا ہے، مگر جس میں طنز کی آمیزش بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہی آزادی اکثر دوسروں کی قیمت پر حاصل کی جاتی ہے۔ ‘‘ان کے فن کی طاقت اس کی ذاتی نوعیت میں ہے۔ غزہ کا المیہ ان کی امریکی شناخت کو چیر کر گزر گیا ہے اور کچھ نہایت گہرا چھو گیا ہے۔ ایک زمانے میں کوچیلا جیسے عظیم تقریبات کے تخلیقی ہدایت کار، سمارہ اب ایک بالکل مختلف راہ پر ہیں۔ کوچیلا ایک کارپوریٹ تہوار بن چکا، جبکہ بامبے بیچ آج بھی باغی روح کا امین ہے۔ یہاں آ کر انہوں نے نہ صرف سوگ منایا بلکہ خود کو جوڑنے کی کوشش بھی کی اپنی بیٹی کیلئےایک کتاب لکھی، اپنے دکھ کو فلسطینی والدین کے دکھ سے جوڑا۔ اپنے کنسٹرکشن ڈیزائن کے تجربے سے انہوں نے ایک مشین بنائی — گھاس کاٹنے والی مشین جیسی، مگر بڑی پیچ دار کھرپی کے ساتھ  جو روز زمین کھودتی ہے۔ اگرچہ انہیں شدید ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف ہے، وہ روزانہ یہ کام کرتے ہیں۔ کیمرے کے سامنے آنسو بہاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’دنیا یہ سب کچھ کیسے نہیں دیکھتی؟‘‘ان کا درد محض استعارہ نہیں۔ فلم میں ایک ڈاکٹر انہیں آرام کا مشورہ دیتا ہے، مگر وہ انکار کرتے ہیں۔ ان کا غم جسم میں گندھا ہوا ہے، ایک زخم کی مانند۔ ڈائریکٹر انصار التائے کی فلم نہ صرف بامبے بیچ کی پرشکوہ سنسانی کو دکھاتی ہے بلکہ امریکی سرحدی روح کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اوآئی سی اجلاس میں ایران کا امریکہ کو بھی انتباہ

کبھی کبھی ہم سمارہ کو گھٹنوں کے بل سورج کو دیکھتے ہوئے پاتے ہیں، جیسے کسی سننے والے خدا سے دعا کر رہے ہوں۔ ان میں واقعی ایک مذہبی جذبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کا نام  عربی میں ایمان رکھا ہے، اور وہ انسانیت کی روح پر ایمان ہی کو اپنی وراثت بنانا چاہتے ہیں۔ پھر بھی وہ خوش فہمی کا شکار نہیں :’’یہ گڑھے ختم ہو جائیں گے، جیسے یہ بچے خبروں سے غائب ہو گئے۔ ‘‘صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمارہ کہتے ہیں کہ وہ ’’حیران‘‘ ہیں کہ اتنے بچوں کو مارا جا سکتا ہے اور دنیا خاموش رہتی ہے۔ لیکن ان کی گفتگو کبھی اس جانب نہیں جاتی کہ یہ نسل کشی کیوں ہو رہی ہے اور کون اس میں مدد دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ اسرائیل یا فلسطین کے بارے میں نہیں، بلکہ ان مرے ہوئے بچوں کے بارے میں ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK