Updated: November 04, 2025, 7:06 PM IST
| Doha
دوحہ (قطر) میں بھوک اور غربت کے خاتمے کیلئے قائم عالمی اتحاد کا پہلا سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ۲۰۰؍ سے زائد ممالک، بین الاقوامی تنظیموں، وزراء اور عالمی لیڈروں نے شرکت کی۔اجلاس میں عالمی سطح پر بھوک اور غربت کے بڑھتے بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیرباک نے خبردار کیا کہ دنیا میں بھوک کا بحران کسی خوراک کی کمی نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، ناکام پالیسیوں اور سماجی تحفظ کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔
دوحہ کانفرنس کا ایک منظر۔ تصویر: ایکس
بھوک اور غربت کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر قائم اتحاد کا پہلا سربراہی اجلاس پیر کو قطر نیشنل کنونشن سینٹر میں منعقد ہوا، جس میں ۲۰۰؍ سے زائد ممالک، تنظیموں، وزراء، عالمی اداروں اور کاروباری لیڈروں نے شرکت کی۔ یہ اجلاس ۴؍ سے ۶؍ نومبر تک جاری رہنے والی سماجی ترقی کی دوسری عالمی سربراہی کانفرنس کے سلسلے کا حصہ ہے، اور اسے عالمی سطح پر بھوک کے خلاف جنگ میں ایک سنگ میل قرار دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ اتحاد نومبر ۲۰۲۴ء میں برازیل کی صدارت میں ریو ڈی جنیرو میں منعقدہ جی ۲۰؍ سربراہی اجلاس کے دوران قائم کیا گیا تھا۔ اسی موقع پر قطر نے اتحاد کے پہلے عالمی اجلاس کی میزبانی کا وعدہ کیا تھا، جو اب عملی طور پر دوحہ میں مکمل ہوا۔ دوحہ میں جاری عالمی اتحاد میں ۲۰۰؍ سے زائد ارکان ہیں، جن میں ۱۰۰؍ ممالک، عالمی ادارے، علاقائی تنظیمیں اور سول سوسائٹی گروپس شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: بھوک کی وجہ خوراک کی کمی نہیں، غلط پالیسیاں اور ناانصافیاں ہیں: اقوام متحدہ
قطر کا مؤقف، ’’بھوک کا خاتمہ اجتماعی ذمہ داری ہے‘‘
قطر کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون، مریم بنت علی بن ناصر المصناد نے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ’’قطر اس یقین کے ساتھ اس اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے کہ بھوک اور غربت کا خاتمہ پوری انسانیت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئےانصاف، مساوات اور حقیقی عالمی شراکت داری ضروری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ۷۰۰؍ ملین سے زائد افراد اب بھی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، اور تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں، قرضوں اور فنڈز کی کمی نے کئی ممالک میں ترقی کے عمل کو متاثر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا مؤقف، ’’بھوک کی وجہ کمی نہیں، تقسیم میں ناانصافی ہے‘‘
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیرباک نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’یہ سوچنا کہ لوگ اس لئے بھوکے ہیں کیونکہ خوراک کم ہے، بالکل غلط ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خوراک موجود ہے مگر سب تک پہنچ نہیں پاتی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۲۴ء میں ۶۷۳؍ ملین افراد بھوک کا شکار ہوئے جبکہ ۳ء۲؍ بلین افراد کو خوراک کی عدم تحفظ کا سامنا رہا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر درجہ حرارت میں ۵ء۱؍ سے ۲؍ ڈگری سیلسیس اضافہ ہوا تو ۸ء۱؍ بلین مزید افراد بھوک کے خطرے میں آ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سوڈان : بدامنی کے سبب ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور
بیرباک نے کہا کہ ’’ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں روزانہ ایک ارب سے زائد کھانے پینے کی اشیاء ضائع ہوتی ہیں، لیکن کروڑوں لوگ اگلے کھانے کی فکر میں ہیں۔ یہ انسانی نظام کی ناکامی ہے، خوراک کی نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھوک کے مسئلے کا حل اجناس کی پیداوار بڑھانے میں نہیں بلکہ منصفانہ تقسیم، استطاعت میں بہتری، اور سماجی تحفظ کو مضبوط بنانے میں ہے۔
برازیل کا تجربہ: پالیسی اصلاحات سے کروڑوں افراد بھوک سے نکلے
برازیل کے سماجی ترقی کے وزیر ویلنگٹن ڈیاس نے کہا کہ اتحاد نے عالمی سطح پر بھوک کے مسئلے کو دوبارہ ایجنڈے پر لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۲۳ء سے اب تک برازیل نے ۴ء۲۴؍ ملین افراد کو بھوک سے اور ۶ء۷؍ ملین کو غربت سے نکالا، جو شواہد پر مبنی پالیسیوں اور سماجی شمولیت کے اقدامات سے ممکن ہوا۔
افریقہ میں خطرناک صورتحال: ہر پانچواں شخص بھوکا ہے
مصری وزیرِ اعظم مصطفیٰ مدبولی نے کہا کہ بھوک اور غربت آج کے دور کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں دو ارب سے زائد افراد خوراک کی عدم تحفظ میں مبتلا ہیں، جبکہ افریقہ میں ہر پانچ میں سے ایک شخص روزانہ بھوک کا سامنا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’غزہ میں جاری قحط اس بات کی مثال ہے کہ تنازعات کس طرح انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوڈان کا بحران شدید: آر ایس ایف پر جنگی جرائم کا الزام، شہریوں کا قتل عام جاری، صحافی بھی محفوظ نہیں
ماحولیاتی بحران اور پائیدار زراعت کی ضرورت
بیرباک نے اپنے خطاب میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھوک کے بحران میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ افریقی خطے ساحل (Sahel) کے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے دیکھا کہ زرخیز زمینیں اب بنجر ہو چکی ہیں اور بارش میں کمی کے باعث لاکھوں افراد اپنی خوراک کھو چکے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ اگر پائیدار زراعت اور ماحولیاتی موافقت میں سرمایہ کاری کی جائے تو لاکھوں افراد کو بھوک اور غربت سے بچایا جا سکتا ہے۔
دوحہ میں ہونے والا یہ اجلاس عالمی برادری کیلئے ایک تاریخی موقع تھا، جس نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بھوک کے مسئلے کی جڑ وسائل کی ناہموار تقسیم اور سیاسی بے عملی ہے، نہ کہ پیداوار کی کمی۔عالمی لیڈروں نے متفقہ طور پر کہا کہ اگر دنیا منصفانہ پالیسیوں، ماحولیاتی تحفظ اور سماجی انصاف کی سمت میں متحد ہو جائے، تو ’’بھوک سے پاک دنیا‘‘ کوئی خواب نہیں بلکہ قابلِ حصول حقیقت ہے۔