• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوڈان کا بحران شدید: آر ایس ایف پر جنگی جرائم کا الزام، شہریوں کا قتل عام جاری، صحافی بھی محفوظ نہیں

Updated: November 03, 2025, 9:51 PM IST | Khartoum

سوڈان کی وزارت سماجی بہبود نے رپورٹ کیا کہ آر ایس ایف کے حالیہ حملے میں ۲۵ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں اور ۳۰۰ سے زیادہ شہری مارے گئے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے دوران انسانی بحران شدید ہوتا جارہا ہے۔ اس درمیان، مصر میں سوڈانی سفیر عمادالدین مصطفیٰ عدوی نے سوڈان کی نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسیز (آر ایس ایف) پر الفاشر، شمالی دارفور میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا۔ اتوار کو قاہرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عدوی نے کہا کہ اس علاقے میں آر ایس ایف کی مہم نسل کشی کے مترادف ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے گروپ کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

عدوی نے یہ بھی الزام لگایا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سوڈانی فوج کے ساتھ جاری تنازع میں آر ایس ایف کی حمایت کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یو اے ای مذاکرات کا حصہ رہا تو ان کا ملک مصر، سعودی عرب، یو اے ای اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کا بائیکاٹ کرے گا۔ عدوی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”ہم انہیں (یو اے ای کو) غیر جانبدار ثالث نہیں سمجھتے۔“ دوسری طرف، امارات نے اس دعوے کی بارہا تردید کی ہے۔ یو اے ای نے جواب دیا کہ وہ سوڈان میں امن چاہتا ہے، تنازع نہیں۔ اور اسے علاقائی فریقین کی جانب سے خانہ جنگی کو بڑھنے سے روکنے میں ناکامی کا افسوس ہے۔

یہ بھی پڑھئے: تباہ حال غزہ میں ۲؍ سال بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال، اسکولوں میں رونق

الفاشر کا محاصرہ اور قبضہ

آر ایس ایف کے شمالی دارفور کے دارالحکومت الفاشر پر قبضے کے بعد سوڈان کے یہ الزامات سامنے آئے ہیں۔ آر ایس ایف نے ۱۸ ماہ کے طویل محاصرے اور مہینوں کی بھوک اور گولہ باری کے بعد الفاشر پر قبضہ کیا جس میں ہزاروں شہری مارے گئے۔ یہ شہر سوڈانی فوج کا علاقے میں آخری گڑھ تھا۔ الفاشر پر قبضہ کو بین الاقوامی مبصرین نے جنگ کے خونریز ترین مراحل میں سے ایک قرار دیا ہے۔ سوڈانی حکومت کے مطابق، الفاشر پر قبضے کے دوران ۲ ہزار سے زائد شہری مارے گئے، حالانکہ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

سوڈان کے وزیر اعظم کامل ادریس نے سوئس اخبار `بلک` کو دیئے گئے بیان میں آر ایس ایف کو بین الاقوامی انصاف کا سامنا کرنے پر زور دیا۔ لیکن انہوں نے سوڈان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی مداخلت کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ ہماری سرزمین ہے اور ہمارے لوگ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔“ 

یہ بھی پڑھئے: الفاشرمیں والدین کےسامنے بچوں کا قتل

عینی شاہدین نے آر ایس ایف کے مظالم بیان کئے

الفاشر سے نکلنے میں کامیاب ہونے اور زندہ بچ جانے والے افراد نے قتل، لوٹ مار اور جنسی حملوں اور دیگر مظالم کے دلخراش واقعات سنائے ہیں۔ اپنے چار بچوں کے ساتھ الفاشر سے بھاگنے والے آدم یحییٰ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ”شہر پر قبضے سے کچھ دیر پہلے آر ایس ایف کے ڈرون حملے میں ان کی اہلیہ ہلاک ہو گئیں۔“ انہوں نے شہر کی حالت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ”سڑکیں لاشوں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ مردوں، عورتوں اور بچوں پر گولی چلا رہے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک کو یہ کہتے سنا، ’کسی کو زندہ مت چھوڑو۔‘“

راشد نامی خاتون نے بتایا کہ جب وہ اپنے بیٹوں کی تلاش کر رہی تھی تو آر ایس ایف کے جنگجوؤں نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ”انہوں نے مجھے ایک گھر میں داخل ہونے پر مجبور کیا اور زیادتی کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ بھاگ گئیں لیکن ان کے بیٹے پیچھے چھوٹ گئے۔

امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ `سولیڈیرائٹس انٹرنیشنل` کی سوڈان کی ڈائریکٹر کیرولین بوورڈ نے بتایا کہ بہت سے لوگ اب بھی سڑکوں پر یا الگ تھلگ دیہاتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”اب بھی خطرناک علاقوں میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کھانا، پائی اور ادویات بھی نہیں ہیں۔“

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی: حماس نے مزید ۳؍لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں، وصول ہونے کی تصدیق

صحافیوں سے رابطہ منقطع

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے الفاشر میں موجود صحافیوں سے رابطہ منقطع ہونے کے متعلق خبردار کیا اور بتایا کہ ۲۶ اکتوبر کو آر ایس ایف کے شہر پر کنٹرول کے بعد سے کم از کم ۱۳ صحافی لاپتہ ہیں۔ دارفور ویمن جرنلسٹس فورم نے سی پی جے کو بتایا کہ حملے کے دوران تین خاتون رپورٹرز کی عصمت دری کی گئی۔ لاپتہ صحافیوں میں سے ایک، فری لانس رپورٹر معمر ابراہیم، ایک مختصر ویڈیو میں مسلح آر ایس ایف جنگجوؤں کے گھیرے میں نظر آئے، جس کے بعد وہ دوبارہ غائب ہو گئے۔

سی پی جے کی علاقائی ڈائریکٹر سارہ قدح نے کہا کہ ”صحافیوں کے اغوا اور شہریوں کے قتل کی ویڈیوز سوڈان میں جوابدہی کے مکمل خاتمے کو ظاہر کرتی ہیں۔“ تنظیم نے حراست میں لئے گئے صحافیوں کی فوری رہائی اور تنازعات والے علاقوں میں میڈیا کارکنوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھئے: سوڈان: خانہ جنگی میں شدت، سیکڑوں بے گھر،عالمی برادری کا فوری جنگ بندی کا مطالبہ

سوڈان میں انسانی بحران سنگین

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف اور فرانسیسی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کا کہنا ہے کہ ہزاروں لوگ الفاشر سے پیدل بھاگ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد ۶۰ کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ بغیر خوراک یا پانی کے طے کر رہے ہیں۔ ان افراد میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، جو کمزور اور غذائی قلت کا شکار ہو کر قریبی قصبے تاویلا پہنچ رہے ہیں۔ یونیسیف کے ماہر ابوبکر احمد نے کہا کہ ”وہ تھکے ہوئے اور بھوکے لگ رہے تھے۔ کچھ کو راستے میں مارا پیٹا گیا تھا اور بہت سے بچے اپنے خاندانوں کے بغیر آئے۔“

سوڈان کی وزارت سماجی بہبود نے رپورٹ کیا کہ آر ایس ایف کے حالیہ حملے میں ۲۵ خواتین کا ریپ ہوا اور ۳۰۰ سے زیادہ شہری مارے گئے۔ طبی اہلکاروں کو ادویات اور عملے کی شدید قلت کی وجہ سے کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک نے آر ایس ایف پر الفاشر میں ہزاروں شہریوں کو حراست میں لینے اور ان کے انخلا کو روکنے کا الزام لگایا۔ گروپ نے صورتحال کو ”انتہائی سنگین“ قرار دیا اور امداد کیلئے محفوظ محفوظ راہداری بنانے اور سڑکوں پر پڑی لاشوں کو دفنانے پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھئے: اقوامِ متحدہ کی سوڈان میں خوفناک قتل عام کی مذمت

آر ایس ایف نے ’خلاف ورزیوں‘ کا اعتراف کیا

آر ایس ایف کے لیڈر محمد حمدان دقلو، جو حمیدتی کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے اعتراف کیا کہ الفاشر پر حملے کے دوران ”خلاف ورزیاں“ ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ تاہم، سوڈانی حکومت نے اصرار کیا کہ آر ایس ایف کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔ حکومت نے اقوام متحدہ اور افریقی یونین سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اپریل ۲۰۲۳ء سے سوڈان کی خانہ جنگی میں اندازاً ۲۰ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہری بے گھر ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK