آلٹ مین، برین-کمپیوٹر انٹرفیس اسٹارٹ اپ ’مرج لیبز‘ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو براہ راست مسک کی کمپنی نیورالنک کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔
EPAPER
Updated: August 24, 2025, 5:02 PM IST | Washington
آلٹ مین، برین-کمپیوٹر انٹرفیس اسٹارٹ اپ ’مرج لیبز‘ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو براہ راست مسک کی کمپنی نیورالنک کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔
ایک پروفیسر نے جمعرات کو انادولو نیوز ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے میدان کی بڑی کمپنی اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین اور ایکس اے آئی اور ٹیسلا کے مالک ایلون مسک انسانی حیاتیات کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ ضم کرنے کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں، جو اخلاقیات اور انسانیت کے مستقبل کے بارے میں سوالات پیدا کرتے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، آلٹ مین، برین-کمپیوٹر انٹرفیس اسٹارٹ اپ ’مرج لیبز‘ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ کمپنی، براہ راست مسک کی کمپنی نیورالنک (Neuralink) کے ساتھ مقابلہ کرے گی جو ۲۰۲۱ء سے اے آئی سے چلنے والے برین امپلانٹس تیار کر رہی ہے۔
ترکی کی برسا اولوداغ یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر احمد داگ نے کہا کہ دونوں منصوبے انسانوں کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھا کر انسانی حدود کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان اقدامات کو ”ٹرانس ہیومینزم“ کے وسیع میدان سے جوڑا۔ اس خیال کو برسوں پہلے گوگل کے سابق انجینئر رے کرزویل نے پیش کیا تھا جنہوں نے تکنیکی انفرادیت اور انسان-مشین انضمام کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا۔
داگ نے وضاحت کی کہ ”تکنیکی انفرادیت، جو مسک کی نیورالنک کے ساتھ سامنے آئی ہے، کا مقصد دماغ-کمپیوٹر انٹرفیسیز اور امپلانٹس کے ذریعے انسانی شعور کو مشینوں میں منتقل کرنا ہے۔ آلٹ مین کی شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو تبدیل کرے گی اور ساتھ ہی عالمی اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں کو بھی بڑھاوا دے گی۔“
انسانی حدود سے آگے بڑھنے کا مقصد
داگ کے مطابق، ٹرانس ہیومنسٹ منصوبوں کا مقصد بیماری، بڑھاپا اور موت جیسی انسانی حدود پر قابو پانا ہے۔ برین امپلانٹس ممکنہ طور پر فالج اور الزائمر جیسے امراض کا علاج کر سکتے ہیں یا انسانی ذہانت کو غیر معمولی طور پر بڑھا سکتے ہیں۔ اس منصوبے کی حمایت کرنے والے افراد، انسانی شعور کو بھی مشینوں میں منتقل کرنے کا تصور کرتے ہیں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے موسمیاتی تبدیلی، وباؤں اور قحط جیسے بحرانوں کو حل کرنے کے راستے کھل سکتے ہیں۔
داگ نے مزید کہا کہ ”پرومیتھیس کی آگ اور گلگامیش کی لافانیت کی تلاش، جیسی کہانیاں انسانیت کی حدود کو عبور کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہیں۔ اسی طرح کی تبدیلیاں نشاۃ الثانیہ، صنعتی انقلاب اور ڈجیٹل دور کے دوران بھی ہوئیں۔“ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی ٹیکنالوجیز انسانی شناخت کے بنیادی تصورات کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ داگ نے زور دیا کہ ”اگر یہ منصوبے عملی شکل اختیار کرتے ہیں، چاہے جزوی طور پر ہی، تو انسانوں کی نامیاتی فطرت اور شعور، شناخت، آزاد ارادہ، آزادی اور مساوات جیسے تصورات پر سوال اٹھیں گے۔“
یہ بھی پڑھئے: ڈنمارک اپنے ہر شہری کو جسم، چہرے اور آواز پر کاپی رائٹ دیگا
داگ نے ٹرانس ہیومینزم کو جدید تاریخ کی سب سے زیادہ بنیاد پرست مباحثوں میں سے ایک قرار دیا اور انسانوں کو ”محض تکنیکی آلات“ میں تبدیل کرنے کے خلاف خبردار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ انسان صرف حیاتیاتی یا ادراکی ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ ثقافتی اور ما بعد الطبیعاتی مخلوق بھی ہیں۔ داگ نے زور دیا کہ ”ایسے منصوبے، انصاف، اخلاقیات، مساوات اور وقار کے فریم ورک کے اندر ہی رہنے چاہئے۔“ انہوں نے خبردار کہا کہ اگر انہیں صرف مارکیٹ کی قوتوں اور طاقت کی اجارہ داریوں پر چھوڑ دیا گیا تو وہ سنگین خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔