برسلز میں ایک اجلاس کے دوران وزرائے خارجہ کی "بھاری اکثریت" نے یورپی یونین کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ جائزے کا مقصد اس بات کی جانچ کرنا ہے کہ آیا اسرائیل، یورپی یونین-اسرائیل معاہدے کی دفعہ ۲ کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جو دونوں فریقوں سے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کا تقاضہ کرتا ہے۔
کایا کلاس۔ تصویر: آئی این این
یورپی یونین نے منگل کو اعلان کیا کہ تنظیم اسرائیل کے ساتھ اپنے ایسوسی ایشن معاہدے کا جائزہ لے گی جو دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی اور تجارتی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یورپی ممالک کے اتحادی گروپ کا یہ اعلان غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور مسلسل امدادی ناکہ بندی کی وجہ سے بگڑتے ہوئے انسانی بحران کے درمیان سامنے آیا ہے۔
اتحادی گروپ کی کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کلاس نے کہا کہ برسلز، بیلجیئم میں ایک اجلاس کے دوران وزرائے خارجہ کی "بھاری اکثریت" نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ اس جائزے کا مقصد اس بات کی جانچ کرنا ہے کہ آیا اسرائیل، یورپی یونین-اسرائیل معاہدے کی دفعہ ۲ کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جو دونوں فریقوں سے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کا تقاضہ کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۰ء میں نافذ کردہ ایسوسی ایشن معاہدہ یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے اور انہیں انسانی حقوق کے عہد سے جوڑتا ہے۔ اگر اسرائیل اس کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو یورپی یونین بھی اس معاہدے کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام رہے گی۔
یہ بھی پڑھئے: یورپی یونین کی شام پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھانے کی منظوری
کلاس نے مزید کہا کہ اسرائیل کا غزہ میں امداد (خوراک سے لدے صرف ۹ ٹرک) کو داخلہ کی اجازت دینے کا فیصلہ سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے۔ اس کا استقبال کیا جانا چاہئے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرک اب بھی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔ امدادی سامان کا غزہ کے شہریوں تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین رخ اختیار کر گئی ہے۔
۲۷ میں سے ۱۷ یورپی یونین کے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کا جائزہ لینے کے اقدام کی حمایت کی جو ڈچ وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ کی تجویز پر شروع کیا گیا تھا۔ ویلڈکیمپ نے یونین کے نام اپنے خط میں غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی پالیسیوں اور اسرائیلی حکام کے ممکنہ دوبارہ قبضہ کے منصوبوں کے بارے میں چونکا دینے والے بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں ۳؍ماہ کے تعطل کے بعد امدادی سامان پہنچا
انسانی حقوق کی تنظیموں نے یورپی یونین پر تنقید کی
انسانی حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں اور کچھ حکام کی جانب سے معاہدے کو مکمل طور پر معطل یا منسوخ کرنے کے مطالبات کے باوجود، یورپی یونین نے ابھی صرف اس کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ذریعے ۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں اور شہری ڈھانچے کی وسیع تباہی کے پیش نظر یہ اقدام ناکافی ہے۔
ہند رجب فاؤنڈیشن کی بانی اور فلسطین حامی کارکن دیاب ابو جہجہ نے یورپی یونین کے ردعمل پر تنقید کی اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے کا جائزہ لینے کے فیصلے کو "تاخیر سے اٹھایا گیا کمزور اقدام" قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "مہینوں تک یورپ خاموش رہا۔ اس درمیان یورپ نے ہتھیار فروخت کئے، اسرائیل کا دفاع کیا اور ایک ایسے معاہدے کو برقرار رکھا جس میں `انسانی حقوق کے احترام` کا وعدہ تھا جبکہ غزہ پر بم برسائے گئے اور وہاں بھکمری پھیلائی گئی۔" انہوں نے مزید کہا، "یہ جوابدہی نہیں ہے، بلکہ چہرہ بچانے کی کوشش ہے۔ اگر یورپ واقعی انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے تو اسے معاہدے کو فوراً معطل کرنا چاہئے، ہتھیاروں کی برآمدات کو روکنا چاہئے اور جنگی مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہئے۔"
یہ بھی پڑھئے: امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کنیڈا کا غزہ جنگ بند کرنے کا مطالبہ
یورپی یونین کا تازہ موقف
پیر کو ایک مشترکہ بیان میں، یورپی یونین نے کہا کہ غزہ کے باشندوں تک امداد پہنچی چاہئے۔ انہیں اس کی سخت ضرورت ہے۔ یونین نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا نئے مجوزہ امدادی ترسیل کا ماڈل بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے، اور واضح کیا کہ وہ اسرائیل کے ایسے کسی بھی منصوبے میں اس کا ساتھ نہیں دے گا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ ساتھ ہی، یونین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں امداد پہنچانے کی مکمل اجازت دے اور اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے میں مدد کرے۔