Inquilab Logo

غزہ جنگ دراصل ’’بچوں کے خلاف جنگ‘‘ ہے: یونیسیف ترجمان جیمز ایلڈر

Updated: March 22, 2024, 5:26 PM IST | Gaza

یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے غزہ جنگ کو بچوں کے خلاف جنگ قرار دیا۔ بچوں کی نفسیات پر جنگ کے گہرے اثرات ہیں۔ عوام میں مایوسی ہے۔ شہری علاقوں کی تباہی ناقابل بیان۔ اسپتالوں کی بھی حالت غیر۔ دوائوں کی قلت۔ طبی عملہ بغیر آرام کئے خدمات انجام دے رہا ہے۔

UNICEF spokesperson James Elder. Photo: INN
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر۔ تصویر: آئی این این

یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے غزہ میں رونما ہونے والے واقعات کو ’’بچوں کے خلاف جنگ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال بچوں کیلئے بالکل تباہ کن ہے۔ انادولو نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے، ایلڈر نے کہا کہ انہوں نے۷؍ اکتوبر کے حملوں کے بعد دوسری بار غزہ کا دورہ کیا جس میں لوگوں میں بہت زیادہ مایوسی، اور نا امیدی دیکھی۔ 
ایلڈرنے جنوبی غزہ کے خان یونس میں ناصر اسپتال کی مخدوش صورتحال پر زور دیا، جو خاص طور پر زخمی بچوں سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ناصر اسپتال جو خاص طور پر زخمی بچوں کیلئے کام کرنے والا ایک انتہائی اہم اسپتال تھا، اب کام نہیں کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے آج مزید دو اسپتالوں کا دورہ کیا ہے جہاں طبی عملہ کافی مصروف نظر آیا۔ عملہ ہمیشہ طبی سامان کی کمی کی بات کرتا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: امریکی نوجوان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہیں: پیو ریسرچ

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یونیسیف اسپتالوں کو کافی مقدار میں طبی سامان پہنچانے میں کامیاب رہا ہے، اور شمالی غزہ کو مزید امداد پہنچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، اہلکار نے کہا کہ ’’غزہ کے ۳۶؍ اسپتالوں میں سے ۲۰؍ سے زیادہ غیر فعال ہیں۔‘‘ یونیسیف نے اسے `بچوں کے خلاف جنگ قرار دیا۔ عام طور پر تمام جنگوں میں بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے، جنگوں میں تقریباً ۲۰؍ فیصد ہلاکتیں بچوں کی ہوتی ہیں لیکن غزہ میں یہ شرح ۴۰؍فیصد کے قریب ہے۔ ۱۰؍ ہزار سے زیادہ بچے ہلاک ہوچکے ہیں، اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کتنے ملبے کے نیچے دبے ہیں۔ یہ بچوں کیلئے بالکل تباہ کن ہے۔ بہت سے بچے بھوکے ہیں، اور قحط کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔‘‘ 
ایلڈرنے مشاہدہ کیا کہ غزہ میں بچے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے علاج کا واحد طریقہ ’’جنگ بندی‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ جنگ بندی تک یہ بچے جنگ زدہ علاقے میں رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ غزہ اس وقت بچوں کےقابل رہنے کی جگہ نہیں ہے لیکن ستم ظریفی ہے کہ یہاں دس لاکھ سے زیادہ بچے ہیں۔ اس لئے ہمیں جنگ بندی کرنی ہوگی اور پھر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ انہیں وہ تمام نگہداشت حاصل ہو جس کی انہیں ضرورت ہے۔ 

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فلسطینی ایک لچکدار قوم ہے جو جنگ کے خاتمے اور عالمی برادری کی حمایت سے اپنے مستقبل کی تعمیر نو کر سکتی ہے، ایلڈر نے کہا کہ ’’غزہ میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دو تہائی گھر اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں پر نفسیاتی صدمہ ایک بہت بڑا کام ہوگا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی ہے، اور وہ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں، اور وہ افرادی قوت کا حصہ بننے کی مہارت حاصل کرنے سے قاصر ہیں، تو یہ آبادی کیلئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: ممنوعہ ہتھیار فلسطینی مٹی کو زہریلا کررہے ہیں: فلسطینی ماہرین

انہوں نے مزید کہا کہ ’’امداد پہنچ رہی ہےلیکن اس سطح پر نہیں جس کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیسیف امداد تقسیم کر رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور دیگر ایجنسیاں جائے وقوع پر ہیں۔ لیکن ضرورت امداد سےمتجاوز ہے۔ لہٰذا ہمیں امداد کیلئے مزید داخلی راستوں کی ضرورت ہے جن پر کم پابندیاں ہوں۔ اور انسان دوست لوگوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عرب یوم مادر: خطے نے ماؤں کو یاد کیا، فلسطینی ماؤں کا دردوالم اس دن بھی کم نہ ہوا

خان یونس کے علاقے میں عمارتیں، یونیورسٹیاں اور مکانات تباہ ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے ایلڈر نے کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ میں نے اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے ۲۰؍ برسوں میں اتنا تباہ کن کچھ دیکھا ہے۔‘‘ ایلڈر نے ذکر کیا کہ رفح میں بغیر پائلٹ کے چلنے والی ہوائی گاڑیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور خوف ہراس پھیل جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بھیڑ حد سے زیادہ ہے، لوگ زمین پر اورخیموں میں ہیں۔ اصل مسئلہ صفائی کا ہے۔ یہ عوام کیلئےعوام کہلانے کیلئے ایک بہت مشکل جگہ ہے۔‘‘
ٹی آر ٹی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور ضروریات کی قلت کے درمیان اب تک تقریباً ۳۲ ؍ہزار فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، شہید کئے جا چکے ہیں، اور۷۴؍ہزارسے زیادہ زخمی ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK