• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی زمینی حملے میں شدت کے بعد غزہ میں نقل مکانی ’خوفناک‘ سطح پر پہنچ گئی: اقوام متحدہ کا انتباہ

Updated: September 20, 2025, 10:03 PM IST | Gaza

اوچا کے ترجمان نے کہا کہ عام شہری اپنی ”آخری امید“ کھو رہے ہیں کیونکہ قحط، بمباری اور جبری نقل مکانی نے ان سے ضروریاتِ زندگی چھین لئے ہیں۔

Displacement rate in Gaza has reached “terrifying” levels. Photo: X
غزہ میں نقل مکانی کی شرح ”خوفناک“ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ تصویر: ایکس

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی رابطہ کاری (اوچا) نے جمعہ کو خبردار کیا کہ غزہ پٹی میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد”خوفناک“ سطح تک پہنچ گئی ہے۔ محصور فلسطینی علاقے کے شمال میں واقع غزہ شہر میں اسرائیلی زمینی کارروائیوں میں توسیع کے بعد ہزاروں افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اوچا کے ترجمان جینز لائرکے نے بتایا کہ مارچ میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ۱۰ لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اناطولیہ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ”غزہ کے اندر ۱۰ لاکھ سے زائد افراد کی نقل مکانی ریکارڈ کی گئی ہے۔ صرف گزشتہ مہینے میں ۲ لاکھ اور گزشتہ اتوار سے بدھ کے درمیان ۵۶ ہزار فلسطینیوں نے نقل مکانی کی۔ یہ تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔ غزہ شہر اس نقل مکانی کا مرکز ہے۔“

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی ٹینکوں اور بارودی روبوٹس نے غزہ میں تباہی مچائی

لائرکے کا کہنا ہے کہ عام شہری اپنی ”آخری امید“ کھو رہے ہیں کیونکہ قحط، بمباری اور جبری نقل مکانی نے ان سے ضروریاتِ زندگی چھین لئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ”جن لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ کئی دنوں سے فائرنگ کے درمیان پیدل چل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں صرف وہی کچھ چیزیں اٹھائی ہیں جو وہ لے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ پر قدم بہ قدم زندہ رہنے کی کوشش ہے جہاں حفاظت ایک وہم ہے۔“

انہوں نے اقوام متحدہ کے عملے کے ذریعے دیکھے گئے ”تباہ کن“ مناظر بیان کئے: فلسطینی خاندان، ایک طویل قطار میں نئی پناہ کی تلاش میں نقل مکانی کررہے ہیں، انہوں نے گدے یا پلاسٹک کے تھیلے اٹھا رکھے ہیں۔ لیکن جب وہ جنوب میں پہنچتے ہیں تو سڑکیں ہی ان کی پناہ گاہیں بن جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محصور علاقے میں خاندانوں کو ”بار بار“ بے گھر کیا جا رہا ہے، جس سے وہ ذہنی طور پر صدمے کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں گھروں سے منتقلی کی قیمت ایک خاندان کیلئے ۳۰۰۰؍ ڈالر سے زیادہ: انروا

لائرکے نے فوری جنگ بندی، بڑے پیمانے پر امداد تک رسائی، محفوظ انسانی راستے اور بجلی اور پانی کی فراہمی کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کی من مانی گرفتاریوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے کئی ہفتوں تک چلنے والے شدید فضائی حملوں کے بعد ۱۵ ستمبر کو غزہ شہر میں زمینی حملے کی شروعات کی۔ غزہ کے حکام کے مطابق، ۱۱ اگست سے اب تک ۳۵۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج پر غزہ شہر کو غیر آباد بنا کر عام شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیلنے کا الزام لگایا گیا ہے جہاں پہلے ہی تقریباً ۵ لاکھ لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کے ثقافتی بائیکاٹ کی نئی مہم ’نو میوزک فار جینوسائیڈ‘

غزہ نسل کشی

غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ میں ایک مختصر جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے عالمی جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کےبہیمانہ حملوں سےباقی ماندہ غزہ لہولہان

گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK