فلوٹیلا مشن کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ اسرائیلی مداخلتوں کے باوجود اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ انہوں نے اس مشن کی حمایت میں عالمی سطح پر مظاہروں کی اپیل کی۔
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 9:55 PM IST | Madrid
فلوٹیلا مشن کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ اسرائیلی مداخلتوں کے باوجود اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ انہوں نے اس مشن کی حمایت میں عالمی سطح پر مظاہروں کی اپیل کی۔
سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے غزہ کیلئے ایک نئے فلوٹیلا (بحری جہازوں کے بیڑے) کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو ۳۱؍ اگست کو اسپین سے روانہ ہوگا۔ اس مشن کا نام ”گلوبل صمود فلوٹیلا“ رکھا گیا ہے اور اس کا مقصد فلسطینی علاقے غزہ پٹی کے گرد اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑ کر جنگ زدہ علاقے میں فلسطینیوں کو انسانی امداد پہنچانا ہے جہاں قحط اور بھکمری نے حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔ تھنبرگ نے انسٹاگرام پر پوسٹ کئے گئے ایک ویڈیو میں کہا کہ ”ہم ناکہ بندی توڑنے کیلئے ایک بار پھر غزہ روانہ ہو رہے ہیں۔“ ان کے ساتھ درجنوں کارکن بھی تھے جن میں امریکی اداکارہ سوسن سارینڈن اور برطانوی اداکار لیام کننگھم شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملے میں الجزیرہ کے ۵؍ صحافی جاں بحق، الجزیرہ نے مذمت کی
گروپ کے مطابق، ”گلوبل صمود فلوٹیلا“ کے تحت درجنوں کشتیاں اسپین سے روانہ ہوں گی اور تیونس اور دیگر ممالک سے مزید کشتیاں ۴ ستمبر کو اس بیڑے میں شامل ہوگی۔ انہوں نے اس مشن کی حمایت میں عالمی سطح پر مظاہروں کی اپیل کی اور دعویٰ کیا کہ ۴۴ ممالک میں مربوط فلسطین حامی تحریکیں متوقع ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ”اسرائیل کی جانب سے ۱۸ سال قبل غزہ کا محاصرہ شروع کرنے کے بعد سب سے بڑی بین الاقوامی کوشش“ ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی امداد کیلئے دس سالہ بوسنیائی بچے کا انوکھا طریقہ
واضح رہے کہ اس سے قبل تھنبرگ ۸ جون کو غزہ کا محاصرہ توڑنے اور امدادی سامان پہنچانے کے مقصد سے روانہ کی گئی “فریڈم فلوٹیلا” کی کشتی ”مدلین“ پر سوار ہوئی تھی جسے غزہ پہنچنے سے پہلے ہی اسرائیلی فوج نے روک لیا تھا اور اس پر سوار کارکنوں کو اسرائیلی قانون کے تحت حراست میں لے لیا تھا۔ کارکنوں کے وکلاء نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کشتی پر ”جبری قبضہ“ کیا گیا اور رضاکاروں کو ”ان کی مرضی کے خلاف حراست میں لیا گیا۔“
فلوٹیلا مشن کے منتظمین نے اپنی کوششوں کو ”نسل کشی کو ختم کرنے“ اور امداد کیلئے ایک راہداری کھولنے کیلئے ایک انسانی اور سیاسی اقدام کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ وہ گزشتہ اسرائیلی مداخلتوں کے باوجود اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں بھوک اور اسرائیلی فائرنگ سے ہلاکتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے
غزہ نسل کشی
جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک ۶۱ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یورپ بھر میں لاکھوں افراد کا اسرائیلی نسل کشی کے خلاف، غزہ کی حمایت میں مظاہرہ
گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل غزہ جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔