• Sat, 06 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان نے روہنگیا پناہ گزینوں کو جبراً ملک بدر کیا: ہیومن رائٹس واچ

Updated: August 30, 2025, 4:11 PM IST | New Delhi

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ریاستی حکومتوں نے مئی ۲۰۲۵ءسے روہنگیا پناہ گزینوں کو ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ قرار دے کر جبراً میانمار اور بنگلہ دیش بھیجنے کی مہم شروع کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس دوران سیکڑوں افراد کو حراست میں لے کر ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے بنیادی حقوق پامال کئے گئے۔

Rohingya refugees. Photo: INN
روہنگیا پناہ گزیں۔ تصویر: آئی این این

ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو کہا کہ مئی ۲۰۲۵ءسے ہندوستانی حکام نے درجنوں روہنگیا پناہ گزینوں کو بغیر کسی حقوقی تحفظ کے بنگلہ دیش اور میانمار بھیج دیا ہے۔ اس نے کہا کہ حکام نے سیکڑوں مزید افراد کو بلاجواز حراست میں رکھا ہے اور ان میں سے بعض کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے۔ مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرانتظام ریاستوں نے روہنگیا اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار دے کر ملک سے نکالنے کی مہم شروع کی۔ بنگلہ دیش بھیجے گئے افراد میں کم از کم ۱۹۲؍روہنگیا پناہ گزین شامل تھے حالانکہ وہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) میں رجسٹرڈ تھے۔ حکام نے۴۰؍ روہنگیا پناہ گزینوں کو میانمار کے ساحل کے قریب ایک جہاز پر رکھا اور انہیں تیر کر کنارے جانے پر مجبور کیا، نیویارک میں قائم اس انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا۔ مزید درجنوں افراد اس کریک ڈاؤن سے بچنے کیلئے بنگلہ دیش فرار ہو گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسلام کا ہندوستان میں ہمیشہ سے وجود رہا ہے اورمستقبل میں بھی رہے گا: موہن بھاگوت

ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا’’ ہندوستانی حکومت کا روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا انسانی زندگی اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان پناہ گزینوں کے خلاف اقدامات، جو میانمار میں مظالم اور جبر سے بھاگے ہیں، بی جے پی کی اس پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کو ’غیر قانونی‘ تارکین وطن کے طور پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بنگلہ دیش کے کاکس بازار کیمپوں میں نو روہنگیا مرد و خواتین کے انٹرویوز سے بدسلوکی کی تفصیلات سامنے آئیں۔ مئی میں ملک بدر کئے گئے چھ پناہ گزینوں نے الزام لگایا کہ ہندوستانی حکام نے انہیں مارا پیٹا اور ان کے پیسے، فون اور یو این ایچ سی آر کے رجسٹریشن کارڈ ضبط کر لئے۔ تین دیگر پناہ گزینوں نے کہا کہ وہ خود ہی بھاگ کر چلے گئے ایک جموں و کشمیر سے، ایک آندھرا پردیش سے اور ایک دہلی سے کیونکہ پولیس نے انہیں من مانی حراست کی دھمکی دی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: سنبھل فسادات: جوڈیشیل پینل نے ’ہندو آبادی میں کمی‘ کو نومبر ۲۰۲۳ء کے تشدد کی وجہ قرار دیا

جبری ملک بدری
آسام کے ضلع گولپارا میں حراست میں لی گئی۳۷؍ سالہ روہنگیا خاتون نے کہا کہ بارڈرسیکوریٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے ۶؍مئی کو اس کے خاندان کو بندوق کی نوک پر بنگلہ دیش بھیج دیا۔ اس نے کہا کہ ’’جب میرے شوہر نے پوچھا کہ ہمیں کہاں جانا چاہئے تو انہوں نے اسے اتنا زور سے تھپڑ مارا کہ آج تک صحیح سن نہیں سکتا۔ انہوں نے ہمیں مزید بولنے پر قتل کی دھمکی دی۔ ‘‘ یہ خاندان اصل میں ۲۰۱۲ء میں میانمار میں فوجی جبر سے بچنےکیلئے فرار ہوا تھا۔ اسی دن دہلی پولیس نے۴۰؍ روہنگیا پناہ گزینوں کو  جن میں ۱۳؍ خواتین شامل تھیں شناختی دستاویزات جمع کرنے کے بہانے حراست میں لے لیا۔ انہیں انڈمان و نکوبار جزائر بھیجا گیا اور ہندوستانی بحریہ کے ایک جہاز پر سوار کیا گیا، جہاں ان پر مبینہ طور پر تشدد کیا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ میانمار کے تاننتھاری ساحل کے قریب پہنچ کر عملے نے انہیں لائف جیکٹس دیئے اور سمندر میں کودنے کا حکم دیا۔ ایک بچ جانے والے نے کہا: ’’ہمیں سب سے خطرناک مجرموں کی طرح سمجھا گیا۔ ‘‘ایک افسر نے کہا: ’’اگر ہم تم سب کو مار ڈالیں تو کوئی ہمیں جوابدہ نہیں ٹھہرائے گا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: چوری کے موبائل بازیاب کرنے کے معاملے میں ستارا پولیس اول

بدسلوکی کی مزید روداد
دیگر پناہ گزینوں نے بھی اسی طرح کے واقعات بیان کئے۔ حیدرآباد کے ایک۴۰؍ سالہ یو این ایچ سی آر رجسٹرڈ شخص نے کہا کہ پولیس نے۱۵؍ مئی کو تریپورہ ریاست میں اسے، اس کی بیوی اور ان کے دو بچوں کو اس وقت مارا پیٹا جب وہ ٹرین کے ذریعے ہندوستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ ’’انہوں نے میری چار سالہ بیٹی کو بھی پیٹا۔ ‘‘ پولیس نے مبینہ طور پر اس کے پیسے، فون اور سامان چھین لیا اور سرحدی اہلکاروں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے خاندان کو زبردستی بنگلہ دیش میں دھکیل دیا اور ان سے ایک جھوٹا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کرایا کہ وہ ’بنگلہ دیشی‘ ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا کہ جموں میں حکام نے روہنگیا کے شیلٹرز کو توڑ پھوڑ کیا اور کم از کم۳۰؍ پناہ گزینوں کو مئی میں گرفتار کیا۔ ایک روہنگیا خاتون نے کہا کہ پولیس نے اس کے یو این ایچ سی آر اور میانمار کی شہریت کے کاغذات کو مسترد کر دیا اور اسے ’بنگالی‘ کہا جس کے بعد وہ اپنے بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش فرار ہو گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے: اب گولی ماردو لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے : منوج جرنگے

۲۰؍جون کو بنگلہ دیش کی سرحد پار کرنے پر مجبور کئے گئے۲۹؍ سالہ روہنگیا نوجوان نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک، ہم بھاگ رہے ہیں اور امید ڈھونڈ رہے ہیں جو کبھی پوری ہونے والی نہیں۔ ‘‘ ہندوستانی سپریم کورٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے گی کہ آیا روہنگیا ’پناہ گزین‘ ہیں یا ’غیر قانونی داخل ہونے والے۔ ‘ اگلی سماعت ۲۳؍ستمبر کو مقرر ہے۔ مئی میں عدالت نے ملک بدری روکنے سے انکار کر دیا اور سمندر میں پناہ گزینوں کو چھوڑنے کے دعوے کو’خوبصورتی سے گھڑا ہوا قصہ ‘قرار دیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے ہندوستان پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر من مانی گرفتاریوں اور ملک بدری کو ختم کرے اور روہنگیا کو پناہ گزین تسلیم کرے۔ پیئرسن نے کہا:’’حکام کو ان کے حقوق پامال کرنے کے بجائے یو این ایچ سی آر کے ساتھ مل کر ان کے تحفظ کیلئے کام کرنا چاہئے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK