انڈیا-پاکستان کے درمیان چار روزہ کشیدگی کے دوران تارکین وطن مزدوروں نے اپنی پریشانیاں بیان کیں، ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بحران کے دوران تارکین وطن مزدوروں کیلئے ایک جامع پالیسی بنائے تاکہ وہ بھی محفوظ زندگی گزار سکیں۔
EPAPER
Updated: May 13, 2025, 10:10 PM IST | New Delhi
انڈیا-پاکستان کے درمیان چار روزہ کشیدگی کے دوران تارکین وطن مزدوروں نے اپنی پریشانیاں بیان کیں، ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بحران کے دوران تارکین وطن مزدوروں کیلئے ایک جامع پالیسی بنائے تاکہ وہ بھی محفوظ زندگی گزار سکیں۔
ایک تارکین وطن مزدور نے، جو پنجاب کے سب سے بڑے صنعتی مرکز لدھیانہ میں کام کرتا ہے، پیر کو انڈیا-پاکستان کے درمیان چار روزہ کشیدگی کے دوران اپنے خوفناک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس کے اہل خانہ کو خوراک اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مدد کیلئے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ وہ اپنے آبائی ریاست اڑیسہ سے تقریباً۲۰۰۰؍ کلومیٹر دور تھے۔ یہ مزدور، جس نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، لدھیانہ میں اپنی بیوی اور۱۴؍ سالہ بیٹے کے ساتھ اپنے ذاتی گھر میں رہتا ہے۔ اس۵۰؍ سالہ شخص نے، جو ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا ہے، نےکہا:’’ہم ان چار دنوں میں سخت خوفزدہ تھے۔ میں اپنی حفاظت اور مستقبل کے بارے میں فکرمند تھا۔ اگر یہ کشیدگی مزید جاری رہتی تو یہاں رہنا ہمارے لئےبہت مشکل ہو جاتا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: چھپرہ :بی ایس ایف کے شہید جوان محمد امتیاز کی سرکاری اعزاز کےساتھ تدفین
پنجاب اور جموں کشمیر میں تارکین وطن مزدور اس تنازعے کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ اس بڑے ورک فورس کیلئے ایسی پالیسی بننی چاہئےجو جنگ، وباؤں اور دیگر ہنگامی حالات میں ان کی مدد کرے۔ مزدور نے بتایا کہ اس کے اڑیسہ میں موجود خاندان نے بار بار فون کرکے واپسی کا مطالبہ کیا لیکن ان چار دنوں میں واپس جانا ایک مشکل کام تھا۔ جب وہ ریلوے اسٹیشن گیا تو وہاں کام کے دیگر مزدوروں کا ہجوم نظر آیا جو کسی بھی ٹرین میں سوار ہونے کیلئے دھکم پیل کر رہے تھے۔ اس مزدور نے بتایا کہ ’’تنازعے کے پہلے دن ہی مزدور واپس جانے لگے۔ اترپردیش، بہار، ہماچل پردیش اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے مزدور فوراً روانہ ہونے لگے۔ ہمارے لئے یہ ایک لمبا اور خطرناک سفر تھا۔ ‘‘اس نے کہا کہ دن کے وقت سڑکوں پر کچھ نقل و حرکت دکھائی دیتی تھی، لیکن رات کے وقت لدھیانہ میں بلیک آؤٹ ہو جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’آپریشن سیندور ختم نہیں ہوا، صرف روکا گیاہے‘‘
اس نے کہا کہ ’’ایک پریشان کن احساس پوری رات چھایا رہتا تھا۔ فوری طور پر واپس جانے کی خواہش ہوتی تھی، لیکن بے بسی نے ہماری تکلیف میں اضافہ کر دیا۔ ‘‘اس نے بتایا کہ جب وہ راشن کی دکانوں پر گیا تو زیادہ تر شیلف خالی تھے۔ اس نے۲۰؍ کلو چاول، ۱۵؍ کلو آلو اور۵؍ کلو دال بہت زیادہ قیمتوں پر خریدی۔ کشمیر میں سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز کے لیڈرعبدالرشید ناجر نے بتایا کہ زیادہ تر تارکین وطن مزدوروں کو مقامی لوگوں کی مدد سے ٹھہرایا گیا۔ ناجر نے کہا کہ’’مقامی لوگوں نے ان چار دنوں میں تارکین وطن مزدوروں کو ہر ممکن مدد فراہم کی۔ تقریباً۱۰؍ فیصد مزدور علاقے سے نکل چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ مزدوروں کے حقوق کے کارکن دھرمیندر کمار نے بتایا کہ بہار، جھارکھنڈ اور اترپردیش سے تعلق رکھنے والے مزدور پنجاب اور جموں کشمیر میں تعمیرات، زراعت، گارمنٹس، ہوٹلوں اور سڑکوں پر کام کرتے ہیں۔ دھرمیندر کمار نے کہا کہ ’’تنازعے کی وجہ سے عارضی طور پر ملازمتیں بھی چلی گئیں کیونکہ فیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر کام معطل رہا۔ جو واپس گئے، انہیں بہت زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑا۔ ان تمام اقتصادی اخراجات کا بوجھ صرف مزدوروں پر پڑتا ہے۔ ‘‘محنت کشوں کے ماہر معاشیات کے آر شیام سندر، جو ایم ڈی آئی گڑگاؤں میں وزیٹنگ پروفیسر ہیں، نے کہا کہ حکومت کو کسی بھی بحران کے دوران تارکین وطن مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: لوگ اب اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں،پونچھ میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا اعلان
کے آر شیام سندر نے کہا کہ ’’وہ (تارکین وطن مزدور)۲۰۲۰ء اور۲۰۲۱ء میں کووڈ-۱۹؍ کے دوران بھی سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ کسی بھی مقامی یا عالمی تنازعے میں تارکین وطن مزدور سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی حفاظت، خوراک کی دستیابی اور اس علاقے میں رہنے کے خطرات کے بارے میں مسلسل فکر مند رہتے ہیں۔ مسلم مزدوروں کو تو فرقہ وارانہ نفرت کی وجہ سے اضافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تارکین وطن اور مقامی لوگوں کے درمیان تنازعہ بھی ہو جاتا ہے۔ اس واقعے نے یہ پیغام دیا ہے کہ حکومت کو تارکین وطن مزدوروں کیلئے ایک جامع پالیسی بنانی چاہئے تاکہ وہ بحران کے دوران محفوظ زندگی گزار سکیں۔