Inquilab Logo Happiest Places to Work

سلامتی کونسل میں ایران کا امریکہ، اسرائیل کے ساتھ تصادم، نیوکلیائی مذاکرات کو بے معنی قرار دیا

Updated: June 14, 2025, 8:08 PM IST | New York

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے امیر سعید عرفانی نے کونسل کو بتایا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ ان جرائم کی حمایت کر کے وہ نتائج کی مکمل ذمہ داری کا حصہ دار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں میں ۷۸ افراد ہلاک اور ۳۲۰ سے زائد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

Emergency meeting on Iran-Israel conflict at the UN General Assembly. Photo: UN
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران اسرائیل تنازع پر ہنگامی اجلاس۔ تصویر: یو این

جمعہ کو ایران اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جھڑپ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں ایران نے امریکہ پر اسرائیل کے غیر معمولی حملوں میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جبکہ واشنگٹن نے تہران کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے امریکی شہریوں یا اس کے اثاثوں کے خلاف جوابی کارروائی کی تو اسے "شدید نتائج" کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے امیر سعید عرفانی نے کونسل کو بتایا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ ان جرائم کی حمایت کر کے وہ نتائج کی مکمل ذمہ داری کا حصہ دار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں میں ۷۸ افراد ہلاک اور ۳۲۰ سے زائد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

یہ بھی پڑھئے: ایران اسرائیل تنازع: امریکہ، اسرائیل کی مدد کررہا ہے: امریکی اہلکار

امریکہ نے ایران کو "نتائج" کی دھمکی دی

امریکی حکام نے کونسل کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے حملوں سے قبل واشنگٹن کو آگاہ کیا گیا تھا، لیکن حملہ میں امریکی افواج براہ راست ملوث نہیں تھیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار میک کوئی پٹ نے کہا، "ایرانی قیادت کیلئے یہی عقلمندی ہوگی کہ وہ اس وقت مذاکرات کرے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے امریکی شہریوں یا تنصیبات کو نشانہ بنایا تو اسے "سنگین نتائج" بھگتنا پڑیں گے۔ انہوں نے واضح کیا، "کوئی حکومت، امریکی شہریوں، امریکی اڈوں، یا دیگر امریکی ڈھانچے کو نشانہ نہ بنائے۔" امریکہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے اپنے دفاع میں کارروائی کی اور واشنگٹن ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے یا علاقے کو غیر مستحکم کرنے سے روکنے کیلئے سفارتی حل کی کوشش جاری رکھے گا۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی ایلچی ڈینی ڈینون نے کونسل کو بتایا کہ ہم نے سفارت کاری کے نتائج کا انتظار کیا لیکن مذاکرات کو طول پکڑتے دیکھا جبکہ ایران نے جھوٹے وعدے کئے یا بنیادی شرائط کو ماننے سے انکار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے تصدیق کی ہے کہ "کچھ ہی دنوں میں ایران متعدد بموں کیلئے کافی مواد تیار کر سکتا تھا۔" ڈینون نے ان حملوں کو "قومی بقاء کا عمل" قرار دیا، جو اسرائیل نے "تنہا انجام دیا۔"

یہ بھی پڑھئے: آیت اللہ خامنہ ای کا انتباہ، ’’اسرائیل اپنی جارحیت پر پچھتائیگا‘‘

ایران نے ایٹمی مذاکرات کو "بے معنی" قرار دیا

اسرائیل کی جانب سے تازہ اور اب تک کے سب سے بڑے حملوں کے بعد ایران نے امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کو "بے معنی" قرار دیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل کے فوجی حملے کے بعد تہران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کے ساتھ گفت و شنید "بے معنی" ہے۔ اس نے واشنگٹن پر حملے کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ نیم سرکاری تسنیم نیوز ایجنسی نے وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بغائی کے حوالے سے کہا، "دوسری طرف (امریکہ) نے اس طرح عمل کیا جس سے گفت و شنید بے معنی ہو گئی۔ آپ مذاکرات کا دعویٰ نہیں کر سکتے اور ساتھ ہی صیہونی رژیم (اسرائیل) کو ایران کے علاقے کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے سفارتی عمل کو "متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کی" اور امریکی اجازت کے بغیر اسرائیلی حملہ نہ ہوتا۔ ایران نے پہلے امریکہ پر اسرائیل کے حملوں میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا تھا، لیکن واشنگٹن نے اس الزام کی نفی کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تہران کو بتایا کہ اسے اپنے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کرنا "عقلمندی" ہوگی۔

یہ بھی پڑھئے: بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران کے خلاف قرارداد منظور کی

امریکہ-ایران کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہونے والا تھا، لیکن اسرائیلی حملوں کے بعد اس پر غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا یورینیم افزودگی پروگرام صرف شہری مقاصد کیلئے ہے۔ ایران نے اسرائیلی الزامات کو مسترد کیا کہ وہ خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK