Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کے صحافیوں کو حماس سے وابستہ ثابت کرنے کیلئےاسرائیل کا خفیہ سیل

Updated: August 16, 2025, 4:03 PM IST | Telaviv

غزہ کے صحافیوں کو حماس سے وابستہ قرار دینے کیلئے اسرائیل نے خفیہ سیل تشکیل دیا ہے، جس کا کام ہی صحافیوں کو حماس کا حامی یا اس کا رکن قرار دے کر ایسے سوالات قائم کرنا جو ان کے قتل کو جائز ٹھہرائے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

اسرائیلی فوج نے ایک خصوصی اکائی تشکیل دی جسے ’’لیجیٹیمائزیشن سیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا کام غزہ پٹی سے ایسی خفیہ معلومات اکٹھی کرنا تھا جو اسرائیل کی بین الاقوامی میڈیا میں شبیہ کو بہتر بنا سکے۔ اس بات کی تصدیق ۹۷۲؍ پلسمیگزین اور مقامی کال سے بات کرنے والے تین انٹیلی جنس ذرائع نے کی ہے جنہوں نے اس اکائی کے وجود کی توثیق کی۔۷؍ اکتوبر کے بعد قائم ہونے والے اس یونٹ نے ان معلومات کی تلاش کی، حماس کا اسکولوں اوراسپتالوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں، فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے ناکام راکٹ داغے جانے کے واقعات جن کی وجہ سے پٹی میں شہری ہلاک ہوئے،  غزہ میں کام کرنے والے صحافیوں کی نشاندہی جنہیں وہ حماس کے خفیہ کارکن کے طور پر پیش کر سکیں۔ اس کا مقصد صحافیوں کو نشانہ بنانے پر عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے غم و غصے کو کم کرنا تھا۔ اس فہرست میں تازہ ترین نام الجزیرہ کے صحافی انس الشریف کا تھا، جو گزشتہ ہفتے اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے۔ذرائع کے مطابق، اس سیل کا محرک سیکیورٹی نہیں بلکہ پبلک ریلیشنز (عوامی تعلقات) تھا۔ ایک ذریعہ نے بتایا کہ’’ غزہ کے صحافیوں کے دنیا کے سامنے اسرائیل کا نام خراب کرنے پر غصے کی وجہ سے، اس یونٹ کے ارکان کسی ایسے صحافی کو تلاش کرنے کے لیے بے چین تھے جسے وہ حماس سے جوڑ کر نشانہ بنا سکیں۔ذرائع نے اس یونٹ کے کام میں ایک بار بار دہرائی جانے والی روش بیان کی، جب بھی کسی خاص معاملے پر میڈیا میں اسرائیل کی تنقید تیز ہوتی، لیجیٹیمائزیشن سیل کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ ایسی انٹیلی جنس تلاش کرے جسے خفیہ درجہ ختم کرکے عوامی سطح پر استعمال کیا جا سکے تاکہ اس بیانیے کا مقابلہ کیا جا سکے۔انٹیلی جنس ذریعہ نے کہا’’اگر عالمی میڈیا اسرائیل کے ذریعے بے گناہ صحافیوں کو قتل کرنے پر بات کر رہا ہے، تو فوری طور پر ایک صحافی کو تلاش کرنے کا دباؤ ہوتا ہے جو شاید اتنا بے گناہ نہ ہو — گویا کہ اس سے باقی۲۰؍ کو مارنا کسی طرح قابل قبول ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں شدید گرمی کی لہر، لوگ بھوک اور غذائی قلت سے نڈھال،امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں

ایک اور ذریعہ نے کہا کہ اکثر اسرائیلی سیاسی قیادت فوج کو بتاتی تھی کہ سیل کو کن انٹیلی جنس شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ لیجیٹیمائزیشن سیل کی جمع کردہ معلومات براہ راست چینلز کے ذریعے امریکیوں کو بھی باقاعدگی سے فراہم کی جاتی تھی۔ انٹیلی جنس اہلکاروں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کا کام اسرائیل کے لیے جنگ کو طول دینے کے قابل بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ایک اور ذریعہ نے وضاحت کی: "ٹیم باقاعدگی سے ایسی انٹیلی جنس اکٹھی کرتی تھی جسے `حسبارا (تصویری جنگ/پروپیگنڈا) کے لیے استعمال کیا جا سکے — مثلاً کسی اسکول میںحماس کے اسلحے کا ذخیرہ — وغیرہ، جو اسرائیل کے بین الاقوامی جواز کو برقرار رکھنے اور لڑتے رہنے کو تقویت دے سکے۔ مقصد یہ تھا کہ  فوج بغیر دباؤ کے کام کر سکے، تاکہ امریکہ جیسے ممالک ہتھیاروں کی سپلائی روکنے پر مجبور نہ ہوں۔

یہ بھی پـڑھئے: غزہ جنگ: مبینہ طور پر ۱۷؍ ویں اسرائیلی فوجی کی خودکشی

لیجیٹیمائزیشن سیل کے کام سے واقف ایک ذریعہ نے بتایا کہ اس یونٹ نے غزہ کی پولیس کو۷؍ اکتوبر کے حملے سے جوڑنے کے شواہد بھی تلاش کیے، تاکہ انہیں نشانہ بنانے اور حماس کی سیکیورٹی فورس کو ختم کرنے کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
لیجیٹیمائزیشن سیل کی پہلی نمایاں کوشش۱۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو غزہ سٹی میں الاحلی اسپتال کے مہلک دھماکے کے بعد سامنے آئی۔ جبکہ بین الاقوامی میڈیا نے، غزہ کی وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ کیا کہ اسرائیلی حملے میں۵۰۰؍ فلسطینی ہلاک ہوئے، اسرائیلی حکام نے کہا کہ دھماکہ اسلامی جہاد کے راکٹ کے ناکام اڑانے کی وجہ سے ہوا تھا اور ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں کم تھی۔دھماکے کے ایک دن بعد، فوج نے ایک ریکارڈنگ جاری کی جسے لیجیٹیمائزیشن سیل نے انٹیلی جنس انٹرسیپٹس (مواصلاتی رابطے کی نگرانی) میں تلاش کیا تھا، جسے دو حماس کارکنوں کے درمیان فون کال کے طور پر پیش کیا گیا جو واقعہ کی ذمہ داری اسلامی جہاد کی ناکام فائرنگ پر ڈال رہے تھے۔ بعد ازاں بہت سے عالمی اداروں نے اس دعوے کو ممکنہ قرار دیا، جن میں کچھ وہ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی تحقیقات کیں، اور اس جاری کردہ مواد نے غزہ کی وزارت صحت کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچایا — اسرائیلی فوج میں اسے سیل کی فتح کے طور پر سراہا گیا۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں کم از کم۱۰۰؍ بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں:اقوام متحدہ

۱۰؍ اگست کو، اسرائیلی فوج نے چھ صحافیوں کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا جس کا اس نے کھلم کھلا اعتراف کیا کہ اس کا ہدف الجزیرہ کے رپورٹر انس الشریف تھے۔ اس سے دو ماہ قبل، جولائی میں، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے خبردار کیا تھا کہ اسے انس الشریف کی جان کا خدشہ ہے، اور کہا تھا کہ’’ وہ اسرائیلی فوجی مہم جوئی کا نشانہ ہے، جسے وہ اپنی ہلاکت کی پیشگی علامت سمجھتا ہے۔‘‘الشریف کے جولائی میں غزہ کے غذائی بحران کا احاطہ کرتے ہوئے آنسو بہاتے ہوئے اپنی ایک وائرل ویڈیو پوسٹ کرنے کے بعد، اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے ترجمان، ایویچے ایڈرائی نے ان پر حملہ کرتے ہوئے تین مختلف ویڈیوز شائع کیں، ان پر ’’پروپیگنڈا‘‘ اور ’’حماس کی جعلی قحط مہم ‘‘میں حصہ لینے کا الزام لگایا۔ ایک ماہ بعد، انہیں ہلاک کر دیا گیا، جس پر فوج نے ان کی حماس میں رکنیت کی خفیہ درجہ ختم شدہ انٹیلی جنس پیش کر کے حملے کو جواز فراہم کیا۔فوج پہلے ہی اکتوبر۲۰۲۴ء میں الزام لگا چکی تھی کہ الجزیرہ کے چھ صحافی، جن میں انس الشریف بھی شامل ہیں، فوجی کارکن تھے، ایک الزام جس کی انہوں نے سختی سے تردید کی تھی۔انس الشریف کو مارنا ,جو باقاعدگی سے غزہ سٹی سے رپورٹنگ کرتے تھے ,اسرائیل کے اس منصوبے کا حصہ تھا کہ شہر پر قبضے کی فوجی تیاریوں سے پہلے میڈیا بلیک آؤٹ نافذ کیا جائے۔انس الشریف کی ہلاکت کے بارے میں ۹۷۲؍ پلس میگزین کے سوالات کے جواب میں، آئی ڈی ایف کے ترجمان نے دہرایا کہ ’’آئی ڈی ایف نے حماس دہشت گرد گروہ کے ایک دہشت گرد پر حملہ کیا جو الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافی کے بھیس میں شمالی غزہ پٹی میں کام کر رہا تھا،‘‘ اور دعویٰ کیا کہ فوج ’’جان بوجھ کر غیر متعلقہ افراد اور خاص طور پر صحافیوں کو نہیں مارتی، یہ سب بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔‘‘صرف۲۸؍ سال کی عمر میں، انس الشریف غزہ کے سب سے معروف صحافیوں میں سے ایک بن گئے تھے۔ سی پی جے کے مطابق، وہ۷؍ اکتوبر کے بعد سے غزہ   پٹی میں مارے جانے والے۱۸۶؍ صحافیوں اور میڈیا کارکنان میں شامل ہیں — یہ اس گروپ کے ۱۹۹۲ءمیں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے آغاز کے بعد سے صحافیوں کے لیے سب سے مہلک دور ہے۔
انس الشریف نے اپنے آخری پیغام میں لکھا، جو ان کی موت کے بعد ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع ہوا،’’اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں، تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے مارنے اور میری آواز دبانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ہر قسم کا درد دیکھا، متعدد بار مصائب اور نقصان برداشت کئے، پھر بھی میں نے سچ کو بغیر مسخ کئے یا جعل سازی کے ویسے ہی پہنچانے میں ایک بار بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK