• Sat, 06 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قانونی ماہرین نے روہنگیا افراد کے بارے میں چیف جسٹس سوریہ کانت کے تبصرے کو ”غیر ذمہ دارانہ“ قرار دیا

Updated: December 06, 2025, 8:01 PM IST | New Delhi

اپنے کھلے خط میں جج، وکلاء ماہرین اور سماجی کارکنان نے لکھا ہے کہ سی جے آئی کے تبصرے ”آئین کے بنیادی اقدار سے متصادم“ ہیں۔

CJI Surya Kant. Photo: X
چیف جسٹس سوریہ کانت۔ تصویر: ایکس

ملک کے سابق ججوں، سینئر وکلاء، ماہرین تعلیم اور شہری آزادی و انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنان نے چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت کو ایک کھلا خط لکھ کر روہنگیا پناہ گزینوں کی مبینہ حراستی گمشدگی کی سماعت کے دوران ان کے تبصرے کی مذمت کی اور اسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’غیر انسانی‘ قرار دیا۔ جسٹس سوریہ کانت نے متنازع تبصرہ ۲ دسمبر کو ایک عوامی مفاد کی عرضی پر سماعت کے دوران کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پانچ روہنگیا پناہ گزینوں کو مناسب قانونی عمل کی پیروی کئے بغیر ملک بدر کیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران، سی جے آئی کانت نے سوال کیا کہ جو افراد ”باڑ والی سرحد پار کرتے ہیں، سرنگ کھودتے ہیں اور غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں“، وہ نوٹس، خوراک، پناہ گاہ اور دیگر تحفظات کے حق کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ کیا ہم روہنگیا پناہ گزینوں کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کریں؟ بنچ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا مرکز نے کبھی روہنگیا کو باضابطہ طور پر پناہ گزین تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ”پناہ گزین ایک اچھی طرح سے متعین قانونی اصطلاح ہے۔“ عدالت میں یہ درخواست ڈاکٹر ریتا مانچندا نے دائر کی تھی، جو نقل مکانی اور تنازعات پر ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: کیا غیر قانونی روہنگیا کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کریں: سپریم کورٹ

اپنے کھلے خط میں جج، وکلاء ماہرین اور سماجی کارکنان نے لکھا ہے کہ سی جے آئی کے تبصرے ”آئین کے بنیادی اقدار سے متصادم“ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے تبصروں سے روہنگیا پناہ گزینوں کی ”انسانیت کم ہونے“ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے جن کی مساوی انسانیت کے تحفظ کو آئین اور بین الاقوامی قانون میں یقینی بنایا گیا ہے۔ خط میں دلیل دی گئی ہے کہ پناہ گزینوں کو ”دراندازوں“ کے مساوی قرار دینا اور ان کی بنیادی حقوق تک رسائی پر سوال اٹھانا عدالتی نظیروں کو کمزور کرتا ہے۔ خط میں سپریم کورٹ کے ’این ایچ آر سی بمقابلہ ریاست اروناچل پردیش (۱۹۹۶ء)‘ کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اس امر کی تصدیق کی گئی تھی کہ ریاست کو ہر شخص، خواہ شہری ہو یا نہ ہو، کی زندگی اور آزادی کی حفاظت کرنی چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے: دس منٹ ڈیلیوری پر پابندی عائد کی جائے: راگھو چڈھا

دستخط کنندگان نے زور دیا کہ روہنگیا کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ہندوستان نے تاریخی طور پر تشدد سے بھاگنے والی برادریوں کو پناہ دی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آئین ہند کی دفعہ ۲۱ میں درج حقوق عالمی سطح پر لاگو ہوتے ہیں اور نان-ریفاولمنٹ (جس میں افراد کو خطرے کی طرف واپس بھیجنے کی ممانعت ہے) کو ہندوستانی آئینی دائرہ کار میں شامل کیا گیا ہے۔ اپنے خط میں ماہرین نے چیف جسٹس پر زور دیا کہ وہ آئینی اخلاقیات اور کمزور برادریوں کے تحفظ کیلئے عدلیہ کے عزم کی دوبارہ تصدیق کریں۔

یہ بھی پڑھئے: بی ایل اوز کی اموات پر سپریم کورٹ فکر مند

ملک کی مختلف ہائی کورٹس کے سابق ججوں اے پی شاہ، کے چندرو اور انجنا پرکاش، سینئر وکیل راجیو دھون، کولن گونسالویس اور دیگر حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اس خط کی حمایت کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK