• Sat, 27 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شمالی افریقہ اور ساحل خطہ غیر قانونی ہجرت کا نیا عالمی مرکز بن گیا

Updated: December 27, 2025, 3:57 PM IST | Ankara

افریقہ کا ساحل خطہ اور اس کے شمالی پٹے نے گزشتہ پچیس سالوں سے غیر قانونی نقل مکانی اور انسانی اسمگلنگ کے سب سے سرگرم مراکز میں سے ایک کے طور پراپنی پہچان درج کرانے لگے ہیں۔ نائیجر میں مہاجرین کی اسمگلنگ کو جرم قرار دینے والے قانون کی منسوخی، سوڈان میں خانہ جنگی میں شدت، اور چاڈ کی محدود صلاحیت نے شمالی افریقہ اور ساحل میں غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے بجائے، اسے خفیہ راستوں کی طرف موڑ دیا ہے۔

Photo: INN
تصویر: ایکس

افریقہ کا ساحل خطہ اور اس کے شمالی پٹے نے گزشتہ پچیس سالوں سے غیر قانونی نقل مکانی اور انسانی اسمگلنگ کے سب سے سرگرم مراکز میں سے ایک کے طور پراپنی پہچان درج کرانے لگے ہیں۔ نائیجر میں مہاجرین کی اسمگلنگ کو جرم قرار دینے والے قانون کی منسوخی، سوڈان میں خانہ جنگی میں شدت، اور چاڈ کی محدود صلاحیت نے شمالی افریقہ اور ساحل میں غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے بجائے، اسے خفیہ راستوں کی طرف موڑ دیا ہے، جس نے خطے کو ایک عالمی ’’جرائم نیٹ ورک‘‘میں تبدیل کردیا ہے جہاں جنگ، سونا اور انسانی اسمگلنگ باہم الجھی ہوئی ہیں۔خبر رساں ادارے انادولو کے اکٹھا کیے گئے بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق، نائیجر، سوڈان اور چاڈ پر مرکوز سیاسی اور سیکیورٹی کی تبدیلیوں نے حالیہ برسوں میں ساحل اور شمالی افریقہ میں غیر قانونی نقل مکانی کےطور کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اردن کی فوج کا شام میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر حملہ

مغربی افریقہ سے شروع ہونے والے نقل مکانی کے راستے اگادیز میں جمع ہوتے ہیں اور لیبیا اور بحیرہ روم کی طرف جاتے ہیں، جس نے نائیجر کو ساحل میں غیر قانونی نقل مکانی کی حرکتوں میں ایک اہم ملک بنا دیا ہے۔نائیجر پارلیمنٹ کے پاس۲۰۱۶ء میں نافذ ہونے والے قانون نے مہاجرین کی نقل و حمل کو سنگین قید کی سزاؤں کے ساتھ جرم قرار دیا، جس نے خطے میں نقل مکانی کی سرگرمیوں کو زیر زمین کر دیا۔ تاہم ۲۰۲۳ءمیں فوجی بغاوت کے بعد، نئی انتظامیہ نے نومبر ۲۰۲۳ءمیں اعلان کیا کہ اس نے یورپی یونین کی حمایت سے نافذ کیے گئے اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا ہے۔منسوخی کے باوجود، وہ اسمگلنگ نیٹ ورک جنہوں نے برسوں سےخفیہ طریقوں میں مہارت  حاصل کی تھی، اپنی سرگرمیاں کھلے یا قابل گرفت مقامات پر منتقل نہیں کیں۔ بلکہ، نقل مکانی مختلف اور زیادہ خطرناک راستوں کی طرف منتقل ہو گئی۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) اور اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفتر (UNODC) کا کہنا ہے کہ قانون کی منسوخی نے نقل مکانی کی سرگرمیوں کو زیادہ شفاف نہیں بنایا ہے۔ دارے کے مطابق، آٹھ سال تک زیر زمین کام کرنے سے اسمگلنگ نیٹ ورکس کو پیشہ ورانہ مہارت حاصل ہوئی اور وہ مقامی ملیشیاؤں اور شدت پسند گروہوں کے ساتھ گہرائی تک مربوط ہو گئے۔

یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارے کی غیرقانونی بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کی ۱۴؍ ممالک کی مذمت

دریں اثناء سوڈان کی جنگ کے سبب چاڈ ایک نیا مرکز بن کر ابھرا، اور نائیجر میں قانونی غیر یقینی صورتحال اور لیبیا کی سرحدوں پر دباؤ نے کچھ اسمگلنگ نیٹ ورکس کو چاڈ کی طرف دھکیل دیا ہے، جہاں نگرانی کی صلاحیت کمزور ہے۔اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق، سوڈان کے تنازعے سے فرار ہونے والے۱۲؍ لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں نے چاڈ میں پناہ لی ہے، جس نے ملک کو لیبیا اور بحیرہ روم کی طرف مشکل سے کنٹرول ہونے والے ٹرانزٹ ہب میں بدل دیا ہے۔واضح رہے کہ اسمگلنگ نیٹ ورک کمزور علاقوں کا استعمال کرتے ہیںنائیجر اور چاڈ کے بعد، مالی اور سوڈان اہمخطے  کے طور پر ابھرے ہیں جو ساحل بھر میں غیر قانونی نقل مکانی اور انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو برقرار رکھتے ہیں۔نائیجر میں سخت کنٹرول کے بعد، نقل مکانی کے راستے مالی کے شمالی علاقوں میں ریاستی اختیار کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مالی کے راستے الجزائر کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔سوڈان کی جاری خانہ جنگی نے ملک کو دنیا کے سب سے بڑے بے گھر ہونے کے بحرانوں میں سے ایک میں تبدیل کردیا ہے، جس نے ساحل بھر میں عدم استحکام کو ہوا دی ہے۔بہت سے سوڈانی مہاجرین، کیمپوں میں سخت زندگی گزارنے کی وجہ سے، ان اسمگلنگ نیٹ ورکس میں کھنچے چلے آتے ہیں جو انہیں لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک کی طرف لے جاتے ہیں، جس سے ایک علاقائی ایوکو سسٹم کو تقویت ملتی ہے جس میں تنازعہ، جبری بے گھر ہونا، اور منظم جرائم آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: شام نے نئی کرنسی کا اعلان کیا، لین دین کا آغاز یکم جنوری سے ہوگا

ذہین نشین رہے کہ ان حالات کی خواتین اور بچے سب سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ادارے کے تجزیوں کے مطابق، خطے میں انسانی اسمگلنگ کے متاثرین میں سے تقریباً۴۰؍ بچے ہیں۔صحرا میں غیر قانونی سونے کی کانیں یورپ کا خواب دیکھنے والے مہاجرین کے لیے ’’جدید غلامی‘‘ کے پڑاؤبن گئے ہیں، جبکہ خواتین کو دور دراز ٹرانزٹ راستوں پر وسیع پیمانے پر جنسی تشدد اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  تاہم بغیر سرپرست والے بچوں پر جبری مشقت، بھیک مانگنے یا مسلح گروہوں میں بھرتی ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK