• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطین: محمود عباس ۹۰؍ سال کے ہوگئے، عہدے پر فائز دنیا کے دوسرے معمر ترین صدر

Updated: November 15, 2025, 10:22 PM IST | Gaza

فلسطین کے صدر محمود عباس ۹۰؍ سال کے ہوگئے،انہیں عہدے پر فائز دنیا کے دوسرے معمر ترین صدر کا اعزاز حاصل ہوگیا ، جبکہ اسرائیل نے انہیں غیر مقبول اور بے اختیار بنا دیا ہے۔

Palestinian President Mahmoud Abbas. Photo: INN
فلسطینی صدر محمود عباس۔ تصویر: آئی این این

فلسطینی صدر محمود عباس سنیچر کو ۹۰؍ سال کے ہو گئے۔وہ فلسطین کے مغربی کنارے کے چھوٹے حصے میں اپنا آمرانہ اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن اسرائیل کے ہاتھوں وہ ہمیشہ پسِ پردہ دھکیل دیے گئے ہیں، فلسطینی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہیں، اور جنگ کے بعد غزہ پٹی میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔محمود عباس جو کیمرون کے۹۲؍ سالہ صدر پال بیا کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے معمر صدر ہیں، گذشتہ۲۰؍ سال سے عہدے پرفائز ہیں اور تقریباً پورے عرصے میں وہ انتخابات نہیں کراسکے۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی کمزوری نے فلسطین کو بنا لیڈر قوم بنا دیا ہے،اس دوران فلسطینی ریاست قائم کرنے کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔

یہ بھی پرھئے: غزہ کی میونسپل یونین کا انتباہ: علاقے میں ۷ لاکھ ٹن کچرا جمع ہونے سے عوامی صحت کو شدید خطرہ

امریکہ نے اسرائیل کے اس منصوبے کی تائد کی ہے کہ عباس کی فلسطینی اتھارٹی کو جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے دی جائے۔ نقادوں کو خدشہ ہے کہ خطے کے فلسطینیوں کو اسرائیل کے اتحادیوں کے غلبہ والے کسی بین الاقوامی ادارے کے تحت رہنے پر مجبور کر دیا جائے گا، جہاں نہ تو ان کی کوئی آواز ہوگی اور نہ ہی ریاست قائم کرنے کا کوئی حقیقی راستہ ہوگا۔نقادوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’عباس نے اپنا سر ریت میںچھپا رکھا ہے اور کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔ان کی قانونی حیثیت برسوں پہلے ختم ہو چکی تھی۔ وہ اپنی ہی جماعت اور مجموعی طور پر فلسطینیوں کے لیے ایک بوجھ بن گئے ہیں۔‘‘ ان کے زیر اقتدار علاقہ ، بدعنوانی کے لیے بدنام ہے۔ عباس شاذ و نادر ہی رام اللہ شہر میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے باہر نکلتے ہیں، سوائے بیرون ملک سفر کے۔ وہ فیصلہ سازی کو اپنے انتہائی قریبی حلقے تک محدود رکھتے ہیں، جس میں حسین الشیخ بھی شامل ہیں۔ جنہیں انہوں نے اپریل میں اپنا نامزد جانشین مقرر کیا تھا۔ ایک جائزے سے پتا چلا کہ مغربی کنارے اور غزہ کے ۸۰؍ فیصد فلسطینی چاہتے ہیں کہ عباس استعفیٰ دے دیں۔ صرف ایک تہائی چاہتے ہیں کہ پی اے کو غزہ پٹی کی مکمل یا مشترکہ حکومت حاصل ہو۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ اور کئی عرب ممالک کا اقوام متحدہ کی غزہ کی قرارداد کو جلد اپنانے پر زور

واضح رہے کہ یہ صورتحال۲۰؍ سال قبل سے یکسر مختلف ہے، جب فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی وفات کے بعد عباس اس امید پر صدر منتخب ہوئے تھے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے مذاکرات کر سکیں گے۔عباس کو پہلا بڑا دھچکا۲۰۰۷ء  میں اس وقت لگا، جب حماس نے ایک پرتشدد کارروائی میں پی اے کو غزہ پٹی سے باہر نکال دیا۔جس کے بعد عباس مغربی کنارے کے اہم آبادیاتی مراکز کے آس پاس کے علاقوں کے انچارج رہ گئے۔ لیکن ان کی طاقت مفلوج ہو چکی ہے کیونکہ اسرائیل کا معیشت پر مکمل کنٹرول ہے، وہ مغربی کنارے کے وسائل، اس کی زیادہ تر زمین پر قابض ہے۔نیتن یاہو، جس نے ۲۰۰۹ءمیں اقتدار سنبھالا تھا، ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کردیا۔اس کے علاوہ اے پی کا اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ہے جس کے تحت پی اے اسرائیل کے ساتھ عسکریت پسندوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتی ہے اور اکثر مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام پی اے کو اسرائیل کی ذیلی حکومت تصور کرتے ہیں۔جو حریفوں کو دباتی ہے جبکہ اسرائیل مغربی کنارے کے بڑے حصے کو نگلتا جا رہا ہے۔انہوں نے اسرائیل پر آباد کاریوں کے پھیلاؤ کو روکنے یا امن معاہدہ کرنے کے لیے امریکہ یا یورپ کی طرف سے کوئی کامیاب دباؤ نہیںڈا لاہے۔عبد الجواد عمر کا کہنا ہے کہ اس وقت جب اسرائیل کی انتہائی دائیں جماعتیں فلسطینیوں کے خاتمےکے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں، عباس کی بے عملی قومی خودکشی کی ایک قسم ہے۔ اگرچہ کچھ فلسطینیوں کا خیال ہے کہ ۷؍ اکتوبر کا حملہ تباہ کن تھا، لیکن وہ حماس کو فلسطینی عوام کی جانب سے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جبکہ عباس بے عمل ہیں۔ تاہم عباس نے غزہ میں جنگ ختم ہونے کے ایک سال کے اندر قانون ساز اور صدارتی انتخابات کا وعدہ کیا ہے۔ اس ہفتے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات میں، انہوں نے ایک نیا آئین تیار کرنے کے لیے ایک فلسطینی-فرانسیسی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔اور بدعنوانی کے خلاف کچھ اقدامات کئے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں نسل کشی سے بے گھر ۹؍ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو خطرناک طوفان کا سامنا

ایک جائزے میں،۶۰؍ فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں شک ہے کہ عباس انتخابات کرائیں گے۔ اس میں پتا چلا کہ اگرانتخاب ہوا تو واضع فاتح مروان البرغوثی ہوں گے، جو عباس کی فتح فیکشن کے ایک سینئر لیڈرہیں اور۲۰۰۲ء سے اسرائیل کی قید میں ہیں۔ عباس حماس کے کسی بھی امیدوار سے بہت پیچھے تیسرے نمبر پر رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK