• Thu, 13 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطینی امدادی گروپ کا دعویٰ ،اسرائیلی فوجی حراست سے فلسطینی بچوں کی پرگمشدگی

Updated: November 13, 2025, 10:21 PM IST | Gaza

فلسطینی امدادی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوجی حراست سے فلسطینی بچوں کی گمشدگی ہو رہی ہے، گروپ کے مطابق یہ لاپتہ بچے یا تو خوراک کی تلاش میں نکلے تھے یا گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

فلسطین میں سرگرم انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں غزہ کے کم از کم چھ بچے لاپتہ ہوئے ہیں، اور خاندانوں کو خدشہ ہے کہ انہیں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اسرائیلی افواج نے حراست میں لے لیا ہے۔ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل - فلسطین (ڈی سی آئی پی) نے بدھ کو جاری ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ لاپتہ ہونے کے واقعات اس وقت پیش آئے جب بچے وسیع پیمانے پر تباہی اور بے گھر ہونے کے درمیان یا تو خوراک کی تلاش میں نکلے تھے یا گھر واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔اس گروپ نے لاپتہ بچوں کی ناموں کی شناخت بھی کی ہے، سراج اسماعیل فائق عبداللہ (۱۶؍ سال)، محمود جہاد حسن ابو وردہ (۱۴؍ سال)، سعدی محمد سعدی حسنین (۱۶؍ سال)، جمال نہاد جمیل ایاد (۱۳؍ سال)، ہیثم محمد جمیل المصری (۱۷؍ سال)، اور سیفان اللہ فہد عونی ایاش (۱۶؍ سال)۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی کافائدہ اٹھاتےہوئے اقوام متحدہ کی ہر ضرورتمند تک پہنچنے کی کوشش

ڈی سی آئی پی کے اکاؤنٹیبلٹی پروگرام کے ڈائریکٹر آیاد ابو اقتیش نے کہا کہ’’ اسرائیلی افواج بھوک اور محاصرے کی آڑ میں فلسطینی بچوں کو لاپتہ کر رہی ہیں۔ خاندان اپنے بچوں کی تلاش کر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا، جبکہ اسرائیل غزہ کے قیدیوں کی شناخت اور مقامات چھپا رہا ہے۔‘‘ڈی سی آئی پی کے مطابق یہ چھ لڑکے فروری۲۰۲۴ء سے اکتوبر۲۰۲۵ء کے درمیان لاپتہ ہوئے۔ کچھ کو آخری بار تباہ شدہ گھروں یا چیک پوائنٹس کے قریب دیکھا گیا، جبکہ دیگر بے گھر ہونے کی حالت میں غائب ہوئے۔ کئی معاملات میں، رشتہ داروں کو حال ہی میں رہا ہونے والے قیدیوں سے پتہ چلا کہ بچوں کو اسرائیلی جیلوں، بشمول عوفر، عسقلان اور نقب، میں رکھا جا سکتا ہے۔
لاپتہ ہونے والوں میں سے ایک،۱۶؍ سالہ سعدی حسنین، ۲۲؍ اکتوبر کو اپنےتباہ شدہ گھرکا سامان جمع کرنے گیا تھا اور پھر غائب ہو گیا۔ اس کے خاندان کو بعد میں اس کا فون، کپڑے اور خون کے نشان ملے، لیکن اس کا خود کوئی نشان نہیں ملا۔ ایک اور لڑکا،۱۶؍ سالہ مرگی کے مرض میں مبتلا سیفان اللہ ایاش، جو جون۲۰۲۵ء میں وسطی غزہ کی ایک مسجد سے نکلتے ہوئے مبینہ طور پر اسرائیلی افواج کے ذریعے حراست میں لے لیا گیا تھا۔تاہم اس کے خاندان نے ریڈ کراس کے ذریعے آخری بار سنا تھا کہ اسے اشکلان جیل میں رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کا غزہ میں امن فورس کے قیام کا منصوبہ

دریں اثناءاس گروپ کا کہنا تھا کہ بچوں کی جبری گمشدگی اورمن مانی  حراست بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ، جس کا اسرائیل بھی فریق ہے، کے تحت نابالغوں کو حراست میں صرف آخری حربے کے طور پر رکھا جانا چاہیے، اور خاندانوں کو ان کے بچوں کے ٹھکانے کے بارے میں مطلع کیا جانا ضروری ہے۔رپورٹ میں کہا گیا، کہ ’’اپنے بچوں کی تلاش کرتے والدین اذیت میں  مبتلاہیں، انہیں اسرائیلی حکام کی طرف سے کوئی تصدیق نہیں مل رہی۔جبکہ اسرائیل نے ان مخصوص الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: سوڈانی حقوق گروپ کا آر ایس ایف پرسیکڑوں یرغمالوں کو جیل میں منتقل کرنے کا الزام

یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے ماضی میں کہا تھاکہ وہ عسکریت پسندانہ سرگرمی میں ملوث مشتبہ افراد کو حراست میں لیتی ہے اور قیدیوں کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔ڈی سی آئی پی کا کہنا تھا کہ’’ یہ گمشدگیاں غزہ میں بچوں کے لیے بین الاقوامی تحفظ کے میکانزم کے مکمل خاتمے‘‘ کی عکاس ہیں، جبکہ اسرائیل کی ناکہ بندی اور فوجی مہم جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK