مصعب ابو طہ امریکہ میں اسرائیل نواز گروپس کی جانب سے جلا وطنی کے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۸ جنوری سے صیہونی کارکن گروپ بیٹار یو ایس نے سوشل میڈیا پر مساب ابو طہ کو بار بار نشانہ بنایا ہے اور ان کی جلاوطنی کا مطالبہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 10:03 PM IST | Inquilab News Network | Washington
مصعب ابو طہ امریکہ میں اسرائیل نواز گروپس کی جانب سے جلا وطنی کے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۸ جنوری سے صیہونی کارکن گروپ بیٹار یو ایس نے سوشل میڈیا پر مساب ابو طہ کو بار بار نشانہ بنایا ہے اور ان کی جلاوطنی کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی شاعر مصعب ابو طہ کو ادبی دنیا کے معروف ایوارڈ پلٹزر پرائز سے نوازا جائے گا۔ پیر کو ادارے نے اعلان کیا کہ ابو طہ کو غزہ کے حالات پر مبنی ان کے مضامین کیلئے پلٹزر ایوارڈ برائے کمنٹری (تبصرے) کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ ابو طہ کو ان کے چار مضامین کے اعتراف میں ایوارڈ دیا جائے گا جو دی نیو یارکر میں شائع ہوئے تھے۔ ان مضامین میں انہوں نے غزہ میں جنگ کے دوران جسمانی اور جذباتی تباہی پر روشنی ڈالی ہے اور اپنی یادداشت کے سہارے فلسطینیوں کے تجربات کو بیان کیا ہے۔
۱) "فلسطینی ہونے کے دوران سفر کا درد" (ستمبر ۲۰۲۴ء): اس مضمون میں ابو طہ نے جنگ کے دوران غزہ سے نکلنے میں پیش آنے والی مشکلات اور اپنے وطن سے باہر فلسطینیوں کے ساتھ مشکوک سلوک اور توہین آمیز رویہ پر روشنی ڈالی ہے۔
۲) "غزہ جسے ہم پیچھے چھوڑتے ہیں" (غزہ جنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر): ابو طہ نے غزہ کی عمارتوں، محلوں اور برادریوں کی تباہی کو قبول کرنے کی جدوجہد کو بیان کیا، جو شاید کبھی دوبارہ تعمیر نہ ہو سکیں گی۔
۳) "ایک مہاجر کیمپ کیلئے دعائیہ" (۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ء): اس مضمون میں ابو طہ نے جبالیہ کیمپ کی یادوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
۴) "غزہ میں روزانہ خوراک کی تلاش میں میرے خاندان کی جدوجہد": اس مضمون میں انہوں نے غزہ کی جاری ناکہ بندی کے تحت زندہ رہنے کی ہولناک حقیقتوں کو بیان کیا ہے جہاں ہر دن خوراک، صاف پانی اور مسلسل بمباری کے درمیان حفاظت کی تلاش میں گزر جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینیوں کو بھوکا مرجانا چاہئے: اسرائیل کے وزیر ثقافت کا سفاکانہ بیان
ابو طہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، "میں نے پلٹزر ایوارڈ برائے کمنٹری جیت لیا ہے۔ اس سے ہمیں امیدملنی چاہئے۔ اسے ایک کہانی بننا چاہئے۔" یہ ایک جذباتی جملہ ہے جو ان کے ساتھی فلسطینی شاعر رفعت العریر کی آخری نظم "اگر مجھے مرنا پڑے، تو یہ ایک کہانی بن جائے" کی آخری سطریں ہیں، جو دسمبر ۲۰۲۳ء میں غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا، "آج پلٹزر ایوارڈ حاصل کرنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ ایوارڈ کے ججوں اور بورڈ ممبران کا بہت شکریہ جنہوں نے مجھے اس اعزاز سے نوازا۔" پلٹزر ایوارڈ کیلئے اس زمرے میں نامزد افراد کی فہرست میں لاس اینجلس ٹائمز کے گستاوو ایریلانو اور دی واشنگٹن پوسٹ کے جیری بریور شامل تھے۔
انہوں نے یہ ایوارڈ غزہ میں اپنے خاندان، دوستوں، اساتذہ اور طلبہ کے نام وقف کیا اور خاص طور پر اپنے خاندان کے ان ۳۱ افراد کو خراج تحسین پیش کیا جو ۲۰۲۳ء میں اسرائیلی یک فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ابو طہ نے اپنے دادا دادی کی قبروں کو یاد کیا جنہیں وہ کبھی ڈھونڈ نہیں سکیں گے، اپنے ان طلبہ کو یاد کیا جو خوراک یا لکڑی کی تلاش میں شہید ہوئے اور اس اسکول، جہاں انہوں نے پڑھایا، اور لائبریری کو خراج تحسین پیش کیا جسے انہوں نے قائم کیا تھا اور اس میں ۲۰۲۴ء سے پہلے صرف ایک شاعری کی کتاب شامل کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، "میں فوری اور مستقل جنگ بندی، انصاف اور امن کیلئے دعا گو ہوں!"
یہ بھی پڑھئے: امریکہ:مشی گن کی اٹارنی جنرل نے فلسطین حامی طلبہ مظاہرین کے خلاف الزامات ختم کئے
واضح رہے کہ ابو طہ امریکہ میں اسرائیل نواز گروپس کی جانب سے جلا وطنی کے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۸ جنوری سے صیہونی کارکن گروپ بیٹار یو ایس نے سوشل میڈیا پر مساب ابو طہ کو بار بار نشانہ بنایا ہے اور ان کی جلاوطنی کا مطالبہ کیا ہے۔
ابو طہ کا پس منظر
مصعب ابو طہ ۱۹۹۲ء میں غزہ شہر کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے اور ان کی زندگی اور شاعری جنگ، نقل مکانی، اور ناکہ بندی کے تحت استقامت کے تجربات سے متاثر ہیں۔ ۱۶ سال کی عمر میں، جنوری ۲۰۰۹ء میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں وہ زخمی ہوئے جس میں ۶ افراد شہید ہوئے۔ اس واقعہ نے ان کی شاعری، خاص طور پر نظم "دی واؤنڈز" پر گہرا تاثر چھوڑا۔ ۲۰۱۷ء میں، انہوں نے غزہ میں ایڈورڈ سعید لائبریری قائم کی جو خطے میں پہلی انگریزی زبان کی لائبریری تھی اور ۲۰۱۹ء میں اس کی دوسری شاخ کھولی۔ دونوں کو بعد میں اسرائیلی بمباری نے تباہ کر دیا۔ ابوطہ نے اسلامک یونیورسٹی آف غزہ سے انگریزی میں بی اے کیا اور ۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۳ء تک انگریزی پڑھائی۔ ۲۰۱۹ء میں، وہ پہلی بار ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک ممتاز فیلوشپ کیلئے غزہ سے نکلے۔ بعد میں انہوں نے ۲۰۲۳ء میں سائراکیوز یونیورسٹی سے ایم ایف اے کی ڈگری حاصل کی۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان، کابینہ میں تجویز منظور
۱۳ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ابوطہ نے غزہ شہر میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے خاندان کے ۳۱ افراد کو کھو دیا جن میں ان کی دو کزن بہنیں، ان کے شریک حیات اور ان کے تمام بچے شامل تھے۔ ۲۸ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ان کا اپنا گھر بمباری سے تباہ ہوا حالانکہ وہ اپنے خاندان سمیت چند ہفتوں قبل جبالیہ کیمپ منتقل ہو چکے تھے۔ نومبر ۲۰۲۳ء میں، غزہ سے انخلاء کی کوشش کے دوران، انہیں اسرائیلی فورسیز نے حراست میں لیا، پھر مصر میں رہا کیا اور بعد میں وہ امریکہ منتقل ہوئے۔ وہ اب سائراکیوز یونیورسٹی میں تدریسی موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جہاں سے انہوں نے ۲۰۲۳ء میں ایم ایف اے کیا۔ وہ خود کو "ایک فلسطینی مہاجر" بتاتے ہیں جو اپنے لوگوں کی زندگیوں کو ناکہ بندی اور جنگ کے تحت اور انصاف اور وقار کیلئے ان کی جدوجہد کو دستاویزی شکل دیتا ہے۔