پونے کی طالبہ شرمیسٹھا پانولی کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے پر گرفتار کر لیا گیا، یہ گرفتاری عوامی سطح پر قانونی کارروائی کی شدید مانگ کے بعد عمل میں آئی، خاص طور پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈروارث پٹھان کی جانب سے ۔
EPAPER
Updated: June 01, 2025, 10:52 AM IST | Pune
پونے کی طالبہ شرمیسٹھا پانولی کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے پر گرفتار کر لیا گیا، یہ گرفتاری عوامی سطح پر قانونی کارروائی کی شدید مانگ کے بعد عمل میں آئی، خاص طور پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈروارث پٹھان کی جانب سے ۔
پونے کی سمبیوسس انسٹی ٹیوٹ آف لا کی چوتھے سال کی طالبہ شرمیسٹھا پانولی کو سوشل میڈیا پر حضرت محمد ﷺ کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز تبصرے کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ ویڈیو پوسٹ، جس نے مسلم معاشرے میں شدید غم و غصہ پیدا کیا،۱۴؍ مئی کو اس کے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کی گئی تھی اور بعد میں حذف کر دی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، کولکاتا پولیس نے پانولی کو جمعے کو ہریانہ کے گڑگاؤں میں اس کے رہائشی مقام سے گرفتار کیا۔ پوسٹ کے ایک دن بعد، پانولی نے بلا شرط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس کے تبصروں میں اس کے ذاتی جذبات شامل تھے اور کسی کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود،۲۰؍ مئی کو مہاراشٹر پولیس نے بھارتیہ نیایا سہیتا ( بی ایس این) کی دفعہ ۱۹۶؍(فرقہ وارانہ دشمنی پھیلانا)، دفعہ ۲۹۹؍(مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی غرض سے جان بوجھ کر توہین) اور دفعہ ۳۵۳؍(عوامی بدانتظامی) کے تحت ایف آئی آر درج کی۔
یہ بھی پڑھئے: مرکز، یوپی حکومت اور یو جی سی کو سپریم کورٹ کانوٹس
پانولی ایک انسٹاگرام انفلوئنسر بھی ہے۔ اس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں بھی فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرنے والے اشارے پائے گئے۔ رپورٹس کے مطابق، اس ویڈیو میں بالی ووڈ ایکٹرز پر۲۲؍ اپریل کو پہلگام دہشت گرد حملے کے بعد آپریشن سندور (ایک فوجی کارروائی) پر خاموش رہنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ متنازعہ ویڈیو نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ پیدا کیا۔ ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی اور صارفین کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ کئی لوگوں نے تبصروں میں اسے ٹرول کیا، اور اسے اپنے بیان پر متعدد دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے۔ سخت تنقید کا سامنا کرتے ہوئے، پانولی نے ویڈیو اپنے اکاؤنٹ سے حذف کر دی اور معافی مانگ لی۔ تاہم، اس وقت تک کولکاتا پولیس نے اس کے خلاف شکایت درج کر لی تھی۔ بعد میں قانونی نوٹس جاری کرکے اسے اور اس کے خاندان کے اراکین کو بھیجے گئے۔ شرمیسٹھا کی گرفتاری عوامی سطح پر قانونی کارروائی کی شدید مانگ کے بعد عمل میں آئی، خاص طور پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان نے، جنہوں نے اس کے تبصروں کی مذمت کرتے ہوئے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔ گرفتاری کے عمل میں کچھ پیچیدگیاں بھی سامنے آئیں۔
یہ بھی پڑھئے: کرناٹک : فرقہ وارانہ تشدد روکنے میں ناکامی کا حوالہ دے کر مسلم لیڈران کا استعفیٰ
رپورٹ کے مطابق، کولکاتا پولیس نے پانولی کو بغیر کسی پیشگی قانونی نوٹس یا گرفتاری وارنٹ کے حراست میں لیا، جس نے عمل کی قانونی حیثیت پر سوالات کھڑے کر دیے۔ بعد میں دہلی کے ایک مجسٹریٹ نے ٹرانزٹ ریمانڈ کی منظوری دی، جس کے تحت پانولی کو کولکاتا منتقل کرنے کی اجازت مل گئی۔ سنیچر کو علی پور کورٹ نے پولیس حراست اور ضمانت دونوں سے انکار کرتے ہوئے اسے ۱۳؍جون ۲۰۲۵ء تک عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق، ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’’پانولی اور اس کے خاندان کو قانونی نوٹس بھیجنے کی متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن وہ غائب ہو گئے۔ اس کے بعد پولیس نے معاملہ عدالت کے سامنے پیش کیا۔ عدالت نے گرفتاری وارنٹ جاری کیا، اور جمعہ کی رات کولکاتا پولیس نے اسے گڑگاؤں سے گرفتار کر لیا۔‘‘ اس معاملے نے آن لائن تقسیم پیدا کر دی ہے، جہاں کچھ لوگ گرفتاری کو مذہبی احترام کے تحفظ کیلئے ضروری سمجھ رہے ہیں، جبکہ دوسرے اسے ہندوستان و پاکستان کے کشیدہ ماحول میں آزادی اظہار اور قوم پرست اظہار کو دبانے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا گروپ، جس کا نام ’’ٹیم رائزنگ فالکن‘‘ ہے، نے پانولی کی گرفتاری کی وکالت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔