• Sat, 20 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پوتن نےمجھے مایوس کیا: یوکرین جنگ پر ٹرمپ، فلسطین پر اسٹارمر سے اختلاف

Updated: September 19, 2025, 8:02 PM IST | London

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن پر یوکرین جنگ کے معاملے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر سے فلسطینی ریاست کے قیام پر اختلاف کیا ہے۔ دونوں لیڈران نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں غزہ کی صورتحال کو’’ناقابلِ برداشت‘‘ قرار دیتے ہوئے خطے میں امن کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

Starmer and Donald Trump. Photo: INN
اسٹارمر اور ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن پر یوکرین میں جاری جنگ کے حوالے سے ناراضی کا اظہار کیا ہے اور برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر اتفاق نہیں کیا۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ دعویٰ دہرایا کہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ جنگ ’سب سے آسان‘ تنازع حل ہوسکتا تھا، کیونکہ میرا صدر پوتن کے ساتھ تعلق تھا لیکن انہوں نے مجھے مایوس کیا ہے۔ ‘‘ٹرمپ نے کہا:’’انہوں نے واقعی مجھے مایوس کیا۔ لیکن دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ میں نے سوچا تھا کہ یہ اُن میں سب سے آسان ہوگا، لیکن ہم نے لگ بھگ ہر تنازع کو سلجھا لیا ہے۔ ‘‘ ٹرمپ ایک نیوز کانفرنس میں برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ بات کر رہے تھے، جہاں انہوں نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے دوران حل کئے گئے ’’سات‘‘ تنازعات کا حوالہ دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کردیا، متعدد ممالک نے سخت مذمت کی

دوسری جانب پوتن نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ یوکرین میں ۷؍ لاکھ سے زیادہ روسی فوجی لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین میں فتح حاصل کرنا روس کا ایک’’کلیدی ہدف‘‘ ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر متفق نہیں ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ٹرمپ نے کہا: ’’اس نکتے پر میری وزیرِاعظم سے رائے مختلف ہے، حالانکہ یہ ہمارے چند اختلافات میں سے ایک ہے۔ ‘‘
اس موقع پر اسٹارمر نے کہا کہ وہ اور ٹرمپ خطے میں امن کے آخری مقصد پر متفق ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’ہم اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ امن اور اس کیلئے ایک روڈ میپ کی ضرورت ہے کیونکہ غزہ کی صورتحال ناقابلِ برداشت ہے۔ ‘‘جب اُن سے اس خبر پر سوال کیا گیا کہ وہ ٹرمپ کے ملک چھوڑنے کے بعد ہی فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے جا رہے ہیں، تو اسٹارمر نے کہا:’’میں نے جولائی کے آخر میں اپنے موقف اور وقت کے حوالے سے وضاحت کر دی تھی، اس کا اس سرکاری دورے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں، غزہ شہر کا چوطرفہ محاصرہ

غزہ میں امن کی ضرورت پر مکمل اتفاق ہے: اسٹارمر کی ٹرمپ کے ساتھ نیوز کانفرنس میں گفتگو
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے جمعرات کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ دونوں لیڈر مشرقِ وسطیٰ میں امن اور امن کے روڈ میپ کی ضرورت پر متفق ہیں کیونکہ غزہ کی صورتحال ’’ناقابلِ برداشت‘‘ ہے۔ بکنگھم شائر میں ٹرمپ کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس میں اسٹارمر نے کہا کہ غزہ کی صورتحال اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے برطانوی منصوبے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے غزہ میں یرغمالوں کی رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی کیلئے برطانیہ کے مطالبے کو دہرایا۔ اسٹارمر نے کہا: ’’ہم اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ امن اور ایک روڈ میپ کی ضرورت ہے، کیونکہ غزہ کی صورتحال ناقابلِ برداشت ہے۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس ’دو ریاستی حل، امن یا جنگ بندی نہیں چاہتی۔ ‘ ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے برطانیہ کی جانب سے طے شدہ وقت کا تعلق ٹرمپ کے سرکاری دورے سے نہیں ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’روس سے اتحاد کے باعث ہندوستان کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں‘‘

واضح رہے کہ جولائی میں اسٹارمر نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ ستمبر میں نیویارک میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، جب تک کہ اسرائیل غزہ میں انسانی صورتحال بہتر بنانے اور جنگ بندی پر رضامند ہونے کیلئےاہم اقدامات نہ اٹھائے۔ برطانوی اخبار’’دی آئی پیپر‘‘نے بدھ کو سرکاری ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ برطانیہ اس ہفتے کے آخر میں، ٹرمپ کے دورہ ختم ہونے کے بعد، باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرے گا۔ 
روس-یوکرین جنگ پر گفتگو
یوکرین میں جاری جنگ کے حوالے سے اسٹارمر نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن پر ’مزید دباؤ ڈالنے‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حالیہ روسی حملوں اور گزشتہ ہفتے پولینڈ پر ڈرون حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’بڑھتی ہوئی غیر ذمہ داری‘ کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اسی لئے میں نے پہلے کہا کہ یہ کسی ایسے شخص کے اقدامات نہیں ہیں جو امن چاہتا ہو۔ ‘‘اسٹارمر نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کے بعد یوکرین کیلئے مضبوط سلامتی کی ضمانتیں ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا: ’’میری ایک بڑی تشویش یہ رہی ہے کہ جب ہم جنگ بندی کی بات کرتے ہیں، اور سب ہی جنگ بندی چاہتے ہیں، اور ہم یہ بھی بات کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے بعد کیا ہوگا، تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یوکرین کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK