غزہ میں جنگ بندی کے خلاف یہ امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے۔ اس سے قبل، واشنگٹن اکتوبر اور دسمبر ۲۰۲۳ء، فروری اور نومبر ۲۰۲۴ء اور جون ۲۰۲۵ء میں اسرائیل کی حمایت میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرچکا ہے۔
EPAPER
Updated: September 19, 2025, 4:00 PM IST | New York
غزہ میں جنگ بندی کے خلاف یہ امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے۔ اس سے قبل، واشنگٹن اکتوبر اور دسمبر ۲۰۲۳ء، فروری اور نومبر ۲۰۲۴ء اور جون ۲۰۲۵ء میں اسرائیل کی حمایت میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرچکا ہے۔
اسرائیل کے دیرینہ دوست امریکہ نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں ”فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی“ کا مطالبہ کرنے والی مسودہ قرارداد کو ویٹو کر دیا جس کے بعد عالمی سطح پر سخت غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ متعدد ممالک نے امریکی فیصلے کی سخت مذمت کی ہے اور واشنگٹن پر تنقید کرتے ہوئے اس پر اسرائیل کی جاری جنگ کو ممکن بنانے اور عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا۔
ڈنمارک سمیت کونسل کے ۱۰ منتخب اور غیر مستقل اراکین کی طرف سے پیش کردہ اس مسودہ قرارداد کو ۱۵ رکنی کونسل کے ۱۴ ممبران کی حمایت حاصل ہوئی لیکن امریکہ نے اس کی مخالفت کی اور اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسے رد کر دیا۔ اس قرارداد میں ”غزہ میں اسرائیل کی جاری فوجی کارروائی کی توسیع اور اس کے نتیجے میں عام شہریوں کی مشکلات میں اضافے پر گہری تشویش“ کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس میں اسرائیل سے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا اور محصور فلسطینی علاقے میں ”آبادیاتی یا علاقائی تبدیلی کی کسی بھی کوشش“ کو مسترد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں، غزہ شہر کا چوطرفہ محاصرہ
مشرقِ وسطیٰ کیلئے امریکہ کی نائب خصوصی صدارتی ایلچی، مورگن اورٹیگس نے امریکہ کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی مخالفت ”کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔“ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسودہ قرارداد ”انسانی امداد کی فراہمی میں ایک بامعنی اضافے“ کو تسلیم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کا دفاع کیا اور جنگ زدہ علاقے میں قحط کے بارے میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ رپورٹس کو مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قراردادوں پر یہ امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے۔ اس سے قبل، واشنگٹن اکتوبر اور دسمبر ۲۰۲۳ء، فروری اور نومبر ۲۰۲۴ء، جون ۲۰۲۵ء میں غزہ جنگ بندی کے خلاف اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرچکا ہے اور اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ذریعے ویٹو کے بار بار استعمال نے سلامتی کونسل کو مفلوج کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کے نظام پر عالمی اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مصر، اسپین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہان کا غزہ جنگ بند کرنے کا مطالبہ
فلسطین کا ردعمل
اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور نے امریکی ویٹو کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”کم سے کم چیز جس کا انسانیت، قانونی حیثیت اور اخلاقیات تقاضا کرتی ہیں“ کو روکنے کا عمل قرار دیا۔ انہوں نے کونسل سے غزہ میں ”دکھ کے پہاڑوں“ کو نظر انداز نہ کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ ”جنگ بندی سے زندگیاں بچتی ہیں، یہ فلسطینیوں، اسرائیلیوں، یرغمالیوں اور قیدیوں کو یکساں طور پر بچاتی ہے۔“
فلسطینی ایوانِ صدر نے کہا کہ امریکی ویٹو ”اسرائیلی قبضے کو اپنے جرائم جاری رکھنے کی حوصلہ دیتا ہے۔“ انہوں نے امریکی فیصلے کو نسل کشی کیلئے ”ہری جھنڈی“ قرار دیا۔ ترجمان نبیل ابو رودینہ نے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کیلئے واشنگٹن پر اپنا موقف واپس لینے کیلئے زور دیا۔
یہ بھی پڑھئے: لندن: ’’ٹوگیدر فار فلسطین‘‘ تقریب میں فلمی دنیا کے درجنوں اداکاروں اور فنکاروں کی شرکت
امریکی ویٹو کے بعد عالمی غم و غصہ
غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو روکنے کے امریکی فیصلے کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی۔ الجزائر کے نمائندے عمار بنجما نے اس بے عملی کا موازنہ روانڈا (۱۹۹۴ء) اور بوسنیا (۱۹۹۵ء) میں نسل کشی کے دوران اقوام متحدہ کی ماضی کی ناکامیوں سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ کونسل پہلے ہی دو بار نسل کشی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آج، ہم تیسری ناکامی کا مشاہدہ کرنے کے قریب ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو انتخاب کرنا ہوگا: نسل کشی کو روکنے کیلئے کام کریں یا اس میں ملوث رہیں۔“ انہوں نے براہ راست فلسطینیوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں معاف کر دیں، کیونکہ دنیا حقوق کی بات کرتی ہے لیکن آپ کو ان سے محروم رکھتی ہے۔“
پاکستان کے نمائندے عاصم افتخار احمد نے کہا کہ امریکی ویٹو نے غزہ میں بڑھتی ہوئی انسانی تباہی پر کارروائی کو روک دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ غزہ میں بے مثال بربریت اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پیش نظر کارروائی کرنے کا ایک موقع تھا۔“ احمد نے امریکہ کے اس اقدام کو ”بھاری ذمہ داری“ قرار دیا۔ روس کی نمائندہ واسیلی نیبنزیا نے کونسل کے ۱۰ ہزار ویں اجلاس کے دوران اس ویٹو کو ”المناک علامت“ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ”جب تک واشنگٹن اپنے نظریہ کو تبدیل نہیں کرتا جس سے وہ غزہ کو دیکھتا ہے، یہ کونسل تباہی کی گواہ بنی رہے گی۔“
یہ بھی پڑھئے: ٹائمز اسکوائر کے بل بورڈ میں اسرائیلی ٹیم اور کھلاڑیوں پر یورپی پابندی کا مطالبہ
چین کے نمائندے فو کونگ نے کہا کہ بیجنگ، امریکہ کے ویٹو سے ”شدید مایوس“ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ”جنگ بندی تک پہنچنے سے پہلے مزید کتنی بے گناہ جانیں ضائع ہونی چاہئیں؟“ گیانا کے نمائندے کیرولن روڈریگس-برکیٹ نے واضح طور پر غزہ کی صورتحال کو ”نسل کشی“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”نقل مکانی، تباہی، بیماری، موت یہ سب اس بے لگام ظلم کے سڑے ہوئے پھل ہیں۔“ سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرنے والے ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینا مارکس لاسین نے کہا کہ ”یہ قرارداد امن کیلئے، مصائب کو ختم کرنے کیلئے اور فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کیلئے پیش کی گئی تھی جسے امریکہ نے روک دیا۔“
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے
غزہ نسل کشی
غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک تقریباً ۶۵ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ میں ایک مختصر جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے عالمی جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نےغزہ کی بھکمری چھپانے کیلئے لاکھوں ڈالر کے گمراہ کن اشتہار چلائے: تحقیق
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔