Updated: December 12, 2025, 2:06 PM IST
| New Delhi
حالیہ تحقیق کے مطابق ۱۰؍سے۱۴؍ سال کے بچوں میں سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے توجہ میں کمی پیدا ہوسکتی ہے، جبکہ ٹی وی یا ویڈیو گیمز کا ایسا اثر نہیں پایا گیا۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ یہ اثر انفرادی طور پر معمولی ہے، لیکن آبادی کی سطح پر یہ’اے ڈی ایچ ڈی ‘( ADHD )جیسے مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
۱۰؍سے۱۴؍ سال کے بچوں میں سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے توجہ میں کمی پیدا ہوسکتی ہے۔ تصویر: آئی این این
نیورو سائنسدانوں نے پیر کو نئی تحقیق کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ۱۰ سے ۱۴؍سال کی عمر کے وہ بچے جو سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وقت کے ساتھ اپنی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کمی کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان کی تحقیق، جس میں ۸؍ہزار ۳۰۰؍ سے زیادہ بچوں کا جائزہ لیا گیا، سے معلوم ہوا کہ انسٹاگرام، فیس بک یا اسنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے عدم توجہی (inattention) کی علامات بڑھتی ہوئی نظر آئیں۔ محققین کو ٹی وی دیکھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے ساتھ ایسی کوئی وابستگی نہیں ملی۔ محققین نے ایک ڈوز-ریسپانس پیٹرن دیکھا یعنی جتنا زیادہ وقت بچے روزانہ سوشل میڈیا پر گزارتے گئے، ان کی عدم توجہی کے اسکور بھی اتنے ہی بڑھتے گئے، جو چار سالہ مطالعے کے دوران زیادہ استعمال کرنے والوں میں مجموعی طور پر۱۵ء۰؍ یونٹ تک بڑھ گئے۔
یہ بھی پڑھئے: یوٹیوب کے نیل موہن سی ای او آف دی ایئرمنتخب
محققین نے پیر کو پیڈیاٹرکس اوپن سائنس میں شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں کہا’’اگرچہ یہ اثر فرد کی سطح پر بہت کم ہے، لیکن آبادی کی سطح پر رویوں میں تبدیلی آئے تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ‘‘بچوں میں سوشل میڈیا کے وسیع استعمال کو دیکھتے ہوئے محققین نے کہا کہ عمر کیسخت پابندیوں کی ضرورت ہے تاکہ استعمال کو کم کیا جا سکے اور صحت مند نشوونما کو یقینی بنایا جا سکے۔ کلِنگ برگ اور ان کے ساتھیوں نے۸؍ ہزار۳۲۴؍بچوں کو مختلف نسلی پس منظر سے ٹریک کیا، جن میں سفید فام، سیاہ فام، ہسپانوی، ایشیائی، نیٹو امریکن اور پیسفک آئی لینڈر شامل تھے۔ اوسطاً بچے روزانہ۸۴؍ منٹ سوشل میڈیا پر، ۹۰؍منٹ ویڈیو گیمز کھیلنے میں، اور۱۳۸؍ منٹ ٹی وی یا ویڈیوز دیکھنے میں گزارتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی: کھلے عام کوڑا جلانے پر ۵؍ ہزار روپئے جرمانہ، کوئلہ، لکڑی کے تندور پرپابندی
سوشل میڈیا کے استعمال اور عدم توجہی کے درمیان تعلق پر بچوں کی معاشی حیثیت یا’اے ڈی ایچ ڈی‘(ADHD ) (Attention Deficit Hyperactivity Disorder) کی جینیاتی بنیادوں کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ جن بچوں میں پہلے سے عدم توجہی کی علامات موجود تھیں، انہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشل میڈیا علامات کو بڑھاتا ہے، نہ کہ علامات کا ہونا بچوں کو سوشل میڈیا کی طرف زیادہ راغب کرتا ہے۔ پچھلی تحقیق میں نتائج مختلف تھے کیونکہ زیادہ تر مطالعات میں بچوں کی جینیاتی خصوصیات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ۲۰۲۱ء میں ہندوستان کی۱۹؍ ریاستوں میں کئے گئے۵۰؍ مطالعات کے ایک جائزے سے اندازہ ہوا کہ۲۰؍ سے۴۰؍ فیصد کالج طلبہ انٹرنیٹ کی لت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ۲۰۲۴ء میں تمل ناڈو میں کی گئی ایک چھوٹی تحقیق سے پتا چلا کہ تقریباً ایک چوتھائی نوعمر روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: وندے ماترم پر پارلیمنٹ میں حکومت کو اپوزیشن کا سخت جواب
محققین نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے نتائج کا یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تمام بچے توجہ کی کمی کا شکار ہو جائیں گے۔ اگرچہ دماغی میکانزم ابھی تک واضح نہیں، لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیغامات اور نوٹیفیکیشنز کی بارش توجہ کو بار بار توڑتی ہے۔ پچھلی تحقیق بتاتی ہے کہ ملٹی ٹاسکنگ اور بار بار کی مداخلت حتیٰ کہ ایک موبائل فون کا قریب ہونا بھی توجہ اور سیکھنے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ویڈیو گیمز مسلسل توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور انہیں ادراکی صلاحیت بہتر بنانے سے جوڑا گیا ہے۔ کلِنگ برگ نے کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ کی ایک میڈیا ریلیز میں کہا:’’سوشل میڈیا مسلسل خلفشار پیدا کرتا ہے، اور یہ سوچ بھی کہ کوئی پیغام آیا ہوگا، ذہنی توجہ کو منتشر کر دیتی ہے۔ یہی توجہ برقرار رکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے اور ہمارے پائے گئے تعلق کی وضاحت کر سکتی ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سالگرہ کے دن سونیا گاندھی کو نوٹس ملنے پر پرینکا کا جواب، الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد بتایا
انفرادی طور پر عدم توجہی میں اضافہ بہت معمولی ہے اور عام طور پر قابلِ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن آبادی کی سطح پر یہی چھوٹا سا اضافہ بھی مزید بچوں کو اے ڈی ایچ ڈی کی حد کے قریب لے جا سکتا ہےجس کے نتیجے میں اے ڈی ایچ ڈی کی شرح تقریباً۱۱۵؍ فیصد سے بڑھ کر ۱۴۷؍ فیصد تک جا سکتی ہے۔ محققین کو کسی قسم کی ہائپر ایکٹیویٹی یا بے قابو (impulsive) رویے میں اضافہ نظر نہیں آیا۔ کلنگ برگ نے مزید کہا کہ ’’سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص میں جو اضافہ ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی جزوی وضاحت ہو سکتی ہے، اگرچہ ہمارے مطالعے میں ہائپر ایکٹیویٹی نہیں بڑھی۔