”صدارتی واک آف فیم“ میں سب سے حیران کن تختی گزشتہ امریکی صدر جو بائیڈن کی تصویر کے نیچے لگائی گئی ہے جس میں انہیں ”خوابیدہ جو بائیڈن“ قرار دیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 18, 2025, 9:01 PM IST | Washington
”صدارتی واک آف فیم“ میں سب سے حیران کن تختی گزشتہ امریکی صدر جو بائیڈن کی تصویر کے نیچے لگائی گئی ہے جس میں انہیں ”خوابیدہ جو بائیڈن“ قرار دیا گیا ہے۔
وہائٹ ہاؤس کے ”صدارتی واک آف فیم“ میں سابق امریکی صدور کی تصاویر کے نیچے حال ہی میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی تختیاں نصب کی گئی ہیں جن میں ڈیموکریٹک لیڈران اور سابق ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش سمیت کئی پیشروؤں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ امریکی صدارتی محل میں اوول آفس اور ساؤتھ لان کے درمیان کوریڈورز میں نصب یہ تختیاں ان دیرینہ دو طرفہ روایات سے انحراف کے مترادف ہے جو وائٹ ہاؤس کو قومی اتحاد کی علامت سمجھتی رہی ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے تیزی سے صدارتی رہائش گاہ کو سیاسی اسٹیج اور تاریخی بیانیے کو تبدیل کرنے والی جگہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی سینیٹ نے ارب پتی جیرڈ آئزک مین کو ناسا کا نیا سربراہ مقرر کیا
تختیوں پر درج متنازع تحریریں
”صدارتی واک آف فیم“ میں سب سے حیران کن تختی گزشتہ امریکی صدر جو بائیڈن کی تصویر کے نیچے لگائی گئی ہے۔ روایتی پورٹریٹ کے بجائے بائیڈن کو ایک `آٹو پین` (مشینی دستخط کرنے والا آلہ) کی تصویر سے دکھایا گیا ہے۔ تختی پر انہیں ”خوابیدہ جو بائیڈن“ (Sleepy Joe Biden) قرار دیا گیا ہے اور انہیں ”امریکی تاریخ کا بدترین صدر“ کہا گیا ہے۔ تختی پر ٹرمپ کا یہ غلط دعویٰ بھی دہرایا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے انتخابات ”تاریخ کے سب سے کرپٹ انتخابات“ تھے۔
ایک اور تختی پر سابق صدر براک اوبامہ کو ”براک حسین اوبامہ“ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں ”امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ تقسیم پیدا کرنے والی سیاسی شخصیات میں سے ایک“ قرار دیا گیا ہے۔ (اگرچہ مورخین خود ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ سب سے زیادہ تقسیم پیدا کرنے والے صدر قرار دیتے ہیں)۔
سابق صدر بل کلنٹن کی تصویر کے نیچے لگی تختی، ان کی اپنی صدارت کے بجائے ۲۰۱۶ء کے انتخابات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ، ہلیری کلنٹن، ٹرمپ سے صدارتی انتخاب ہار گئیں۔ ٹرمپ نے اپنی ریپبلک پارٹی کے لیڈر آور سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو بھی نہیں بخشا۔ ان کی تصویر کے نیچے تختی پر لکھا ہے کہ ”بش نے افغانستان اور عراق میں جنگیں شروع کیں۔ یہ دونوں جنگیں نہیں ہونی چاہیے تھیں۔“ واضح رہے کہ بش نے ٹرمپ کی حمایت سے خود کو الگ کرلیا ہے۔
وہائٹ ہاؤس کا مؤقف
وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے ان متنازع تختیوں کو ہر صدر کی میراث کی ”فصیح و بلیغ“ عکاسی قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے کئی تحریریں خود ٹرمپ نے لکھی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کو ”تاریخ کا طالب علم“ قرار دیا۔
یہ تختیاں ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران وائٹ ہاؤس میں ہونے والی وسیع تر تبدیلیوں کا حصہ ہیں۔ ان تبدیلیوں میں سنہری رنگوں کے استعمال اور زرق برق سجاوٹ شامل ہے۔ واضح رہے کہ نیویارک کے ٹرمپ ٹاور اور فلوریڈا میں ان کی مار اے لاگو اسٹیٹ میں بھی اسی طرح کی سجاوٹ کی گئی ہے۔