لندن میں دائیں بازو ک لیڈر ٹومی رابنسن کی قیادت میں لاکھوں افراد نے ہجرت مخالف ریلی نکالی جس کے دوران شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کے مطابق ۲۶؍ اہلکار زخمی اور۲۵؍ مظاہرین گرفتار ہوئے جبکہ ریلی نے برطانیہ میں بڑھتی دائیں بازو کی سیاست کو اجاگر کیا۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 3:02 PM IST | London
لندن میں دائیں بازو ک لیڈر ٹومی رابنسن کی قیادت میں لاکھوں افراد نے ہجرت مخالف ریلی نکالی جس کے دوران شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کے مطابق ۲۶؍ اہلکار زخمی اور۲۵؍ مظاہرین گرفتار ہوئے جبکہ ریلی نے برطانیہ میں بڑھتی دائیں بازو کی سیاست کو اجاگر کیا۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس سروس کے جاری کردہ بیان کے مطابق سنیچر کو برطانیہ میں حالیہ برسوں کی سب سے بڑی دائیں بازو کی ریلیوں میں سے ایک کے دوران پرتشدد جھڑپوں کے بعد کم از کم۲۵؍ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بیان میں اسسٹنٹ کمشنر میٹ ٹوئسٹ نے بتایا کہ اس پرتشدد واقعے میں ۲۶؍ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جن میں سے چار کی حالت تشویشناک ہے۔ زخمیوں میں دانت ٹوٹنا، ناک ٹوٹنے کا شبہ، دماغی صدمہ (کنکشن)، ریڑھ کی ہڈی کی ڈسک پھسل جانا، اور سر پر چوٹ شامل ہیں۔ ٹوئسٹ نے مزید کہا کہ گرفتار کئے گئے۲۵؍ افراد ’’صرف شروعات‘‘ ہیں اور بدامنی میں ملوث مزید افراد کی شناخت کرکے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا:’’یقیناً بہت سے لوگ قانونی حق کے تحت احتجاج کرنے آئے تھے، لیکن کئی ایسے بھی تھے جو تشدد کا ارادہ لے کر آئے۔ انہوں نے افسران کا سامنا کیا، جسمانی اور زبانی بدسلوکی کی، اور ان رکاوٹوں کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی جو سب کی حفاظت کیلئے لگائی گئی تھیں۔ اہلکاروں کو جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا وہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے۔ ۲۶؍ افسران زخمی ہوئے، جن میں چار شدید زخمی ہیں۔ اب تک کی۲۵؍ گرفتاریاں صرف آغاز ہیں۔ بعد از مظاہرہ تحقیقات شروع ہوچکی ہیں، ہم ان لوگوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جو بدنظمی میں شامل تھے اور وہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں سخت پولیس کارروائی کی توقع رکھیں۔ ‘‘
یہ صورتحال ’’یونائٹ دی کنگڈم‘‘ ریلی کے دوران پیش آئی جو تارکین وطن اور اسلام مخالف کارکن ٹومی رابنسن نے منظم کی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق اس ریلی میں تقریباًایک لاکھ ۱۰؍ ہزار سے ایک لاکھ ۵۰؍ ہزار افراد نے وسطی لندن میں شرکت کی۔ گرفتاریاں اس وقت ہوئیں جب دائیں بازو کے مظاہرین اور پولیس افسران کے درمیان سخت جھڑپیں ہوئیں، خصوصاً وہائٹ ہال کے قریب، جہاں تقریباً ۵؍ ہزار افراد نے ’’اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم‘‘ کے بینر تلے جوابی مظاہرہ کیا۔ یہ بڑی ریلی رابنسن کی قیادت میں ہوئی، جو تارکین وطن اور اسلام مخالف بیانیےکیلئے مشہور ہیں۔ انہوں نے اس تقریب کو برطانوی ثقافت اور آزادیٔ اظہار کے دفاع کے طور پر پیش کیا اور اسے ’’حب الوطنی کی وہ طاقت قرار دیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘‘۔
رابنسن نے’ ایکس‘پر دعویٰ کیا کہ تین ملین سے زیادہ لوگ اس ریلی میں شریک ہوئے جبکہ میڈیا کی رپورٹس میں شرکا کی تعداد صرف ایک لاکھ ۱۰؍ ہزار بتائی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں کہا:’’آج تین ملین سے زیادہ محبِ وطن افراد وسطی لندن میں اکٹھا ہوئےیہ حب الوطنی کی ایسی طاقت تھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اور یہ تو ابھی آغاز ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ کا انتباہ: غزہ کے عوام انتہائی بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں
ایک اور پوسٹ میں انہوں نے لکھا:’’گارڈین نے ہماری لندن ریلی میں صرف ایک لالکھ ۱۰؍ ہزار افراد بتائے۔ جبکہ ان کے اپنے ہیلی کاپٹر کی تصاویر میں لاکھوں محبِ وطن نظر آرہے تھے۔ پرانا میڈیا پھر جھوٹ بول کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے۔ اسی لئے اب کوئی ان پر اعتماد نہیں کرتا۔ ہم ہی میڈیا ہیں۔ ‘‘رابنسن نے اس ریلی کو ’’ثقافتی انقلاب کی بنیاد‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ’’ایک خوبصورت منظر‘‘ تھا۔
الجزیرہ کے مطابق، اس تقریب میں مقررین میں امریکی ارب پتی ایلون مسک (ویڈیو لنک کے ذریعے)، فرانسیسی دائیں بازو کے لیڈر ایریک زیمور، اور جرمن ایم پی پیٹر بائسترون (اے ایف ڈی پارٹی) بھی شامل تھے۔ بہت سے مظاہرین برطانیہ اور سینٹ جارج کراس کے جھنڈے، ساتھ ہی امریکی اور اسرائیلی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے، جبکہ کچھ افراد ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ کی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے تاکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت ظاہر کریں۔ نعرے بازی میں ’’انہیں واپس بھیجو‘‘ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی مخالفت جیسے پیغامات شامل تھے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے ‘‘
اسی دوران، انسدادِ نسل پرستی کے مظاہرین قریب ہی جمع ہوئے تاکہ ریلی کے دائیں بازو کے پیغام کی مذمت کرسکیں۔ ان کے ہاتھوں میں ’’پناہ گزین خوش آمدید‘‘ اور ’’فاشزم کو کچلو‘‘ جیسے پلے کارڈ تھے۔ ان مظاہرین میں برطانوی ارکانِ پارلیمان ڈائنا ایبٹ اور زارہ سلطانہ بھی شامل ہوئیں۔ ایبٹ نے رابنسن کے حامیوں پر ’’بے بنیاد باتیں ‘‘ پھیلانے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کا الزام لگایا، اور کہا کہ پناہ گزین برطانیہ کے سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ نہیں ہیں۔ ’’اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم‘‘ گروپ نے بھی دعویٰ کیا کہ اس کے کچھ اراکین پر ریلی کے دوران حملہ ہوا۔
انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا:’’کیا یہ وہی ’فکرمند عام لوگ‘ ہیں جن کے بارے میں اتنا کچھ کہا جا رہا ہے؟ یا یہ دائیں بازو کے غنڈے ہیں ؟‘‘الجزیرہ کے مطابق، یہ ریلی اس وقت ہوئی جب برطانیہ میں دائیں بازو کی ’’ریفارم یو کے‘‘ پارٹی کی حمایت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ سروے بتاتے ہیں کہ اگر انتخابات اب منعقد ہوں تو یہ پارٹی برطانیہ کی بڑی سیاسی طاقت بن سکتی ہے۔ اگرچہ ’’ریفارم یو کے‘‘ نے رابنسن سے خود کو الگ رکھا ہے، لیکن ہفتے کی ریلی کا پیمانہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مخالفِ ہجرت جذبات کو نمایاں کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جاپان میں سو سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی
ٹومی رابنسن کون ہے؟ وہ شخص جس نے برطانیہ میں لاکھوں افراد کو ہجرت مخالف مارچ کیلئے متحرک کیا
ٹومی رابنسن، جن کا اصل نام اسٹیفن کرسٹوفر یاگزلی-لینن ہے، وہ۱۹۸۲ء میں پیدا ہوئے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں، ایک لاکھ سے زیادہ افراد لندن، برطانیہ کی سڑکوں پر نکل آئے ’’یونائٹ دی کنگڈم‘‘ ریلی کیلئے، جو ہجرت کے خلاف حالیہ برسوں کی سب سے بڑی دائیں بازو کی ریلیوں میں سے ایک تھی۔ اس مارچ کو آزادیِ اظہار کا مظاہرہ قرار دیا گیا، مگر اس کی قیادت رابنسن نے کی جو ملک کی سیاسی فضا میں ایک عرصے سے متنازع شخصیت رہے ہیں۔
رابنسن کی دائیں بازو کی مہماتی جڑیں
رابنسن نے۲۰۰۹ءمیں انگلش ڈیفنس لیگ (EDL) کی بنیاد رکھی، جو ایک اسٹریٹ پروٹیسٹ تحریک تھی جو اسلام اور ہجرت کے خلاف اپنے رویے کیلئے جانی جاتی تھی۔ ای ڈی ایل جلد ہی پرتشدد جھڑپوں اور فٹبال ہولیگنزم سے تعلقات کی وجہ سے بدنام ہوگئی۔ اگرچہ رابنسن نے ۲۰۱۳ء میں اس گروپ سے علاحدگی اختیار کرلی، یہ کہہ کر کہ اس میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی پر انہیں تشویش ہے، لیکن ان کی سرگرمیاں ختم نہ ہوئیں۔ وہ خود کو مسلسل ’’برطانوی اقدار‘‘ اور آزادیٔ اظہار کے محافظ کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، جبکہ ناقدین ان پر نسل پرستی اور تقسیم کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل سے تعلقات کی مخالفت کرنے پر امیزون نے فلسطینی انجینئر کو معطل کر دیا
متنازع عدالتی اور مالی ریکارڈ
رابنسن کے کریئر پر مقدمات اور قید کی سزاؤں کا سایہ رہا ہے۔ انہیں حملہ، مارگیج فراڈ اور عدالت کی توہین کے مقدمات میں جیل جانا پڑا۔ ۲۰۱۸ ءمیں انہیں ایک مقدمے کے باہر براہِ راست نشریات کرنے پر سزا ملی اور۲۰۲۴ء میں ایک شامی مہاجر لڑکے کے بارے میں جھوٹے الزامات پھیلانے اور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر انہیں ۱۸؍ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ مالی مشکلات بھی ان کے پیچھے رہیں۔ ۲۰۲۱ء میں انہوں نے دیوالیہ پن کا اعلان کیا اور تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنے حامیوں سے ملنے والے چندے کو جوا کھیلنے میں ضائع کردیا۔