۲۰۲۵ء کیلئے عالمی جی ڈی پی کی متوقع شرح نمو کو اب صرف ۴ء۲ فیصد کردیا گیا ہے جو ۲۰۲۴ء کی شرح ۹ء۲ فیصد سے کم ہے اور جنوری ۲۰۲۵ء کی پیش گوئی سے ۴ء۰ فیصد پوائنٹس کم ہے۔ ہندوستانی معیشت کی متوقع شرح نمو ۳ء۶ فیصد ہے جو ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷ فیصد سے کم ہے۔
EPAPER
Updated: May 17, 2025, 10:08 PM IST | Inquilab News Network | New York
۲۰۲۵ء کیلئے عالمی جی ڈی پی کی متوقع شرح نمو کو اب صرف ۴ء۲ فیصد کردیا گیا ہے جو ۲۰۲۴ء کی شرح ۹ء۲ فیصد سے کم ہے اور جنوری ۲۰۲۵ء کی پیش گوئی سے ۴ء۰ فیصد پوائنٹس کم ہے۔ ہندوستانی معیشت کی متوقع شرح نمو ۳ء۶ فیصد ہے جو ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷ فیصد سے کم ہے۔
اقوام متحدہ کے شعبہ اقتصادی و سماجی امور (یو این ڈی ای ایس اے) نے حال ہی میں دنیا کی معاشی صورتحال پر ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ غیر معمولی تجارتی تناؤ اور پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے رواں سال کے عالمی اقتصادی منظر نامہ کو متاثر کیا ہے جس کے مختلف ممالک پر تباہ کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ادارے کی رپورٹ ورلڈ اکنامک سچویشن اینڈ پراسپیکٹس ۲۰۲۵ء میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو بڑا دھچکا پہنچے گا جس سے ان کی ترقیاتی پیش رفت کے ختم ہونے اور ان ممالک کے قرض کے بحران میں مزید دھنس جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یو این ڈی ای ایس اے نے نوٹ کیا کہ حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے نے پیداواری لاگت بڑھانے، عالمی سپلائی چینز میں خلل ڈالنے اور مالیاتی اتار چڑھاؤ کے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کاروباری افراد خوفزدہ ہوگئے ہیں اور سرمایہ کاری کے وعدوں کو مؤخر یا واپس لے رہے ہیں، جس سے اقتصادی سست روی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، کم ترقی یافتہ ممالک میں شرح نمو ۲۰۲۵ء میں ۱ء۴ فیصد تک کم ہو جائے گی جو گزشتہ سال کی شرح ۵ء۴ فیصد سے کم ہے۔ اقوام متحدہ کے اقتصادی امور کے شعبہ نے خبردار کیا کہ برآمدات سے آمدنی میں کمی، سخت مالیاتی حالات اور سرکاری ترقیاتی امداد میں کمی کی وجہ سے ان ممالک کا مالیاتی دائرہ کار سکڑ سکتا ہے اور ان کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرسکتا ہے۔ یو این ڈی ای ایس اے کا کہنا ہے کہ عالمی اقتصادی منظر نامہ پہلے ہی منقسم ہے۔ اگر کثیرالجہتی تجارتی نظاموں پر مزید دباؤ پڑتا ہے تو چھوٹی اور کمزور معیشتوں کے کنارے پر دھکیلے جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اس سے نپٹنے کیلئے ادارے نے عالمی سطح پر کثیرالجہتی تعاون کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ تھم گئی
غذائی افراط زر کی شرح میں اضافہ
یو این ڈی ای ایس اے نے اعتراف کیا کہ عالمی سطح پر افراط زر میں کمی آئی ہے لیکن اس نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ سیاسی جغرافیائی تناؤ اور تنازعات کی وجہ سے ٹیرف وارز اور سپلائی چینز کے ٹوٹنے سے یہ رجحان پلٹ سکتا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین نے نوٹ کیا کہ کووڈ-۱۹ وبائی مرض کے بعد سے افراط زر کی لہر نے غذائی تحفظ کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ مختلف عوامل جیسے موسمیاتی خلل، کرنسی کی قدر میں کمی، سپلائی چین میں رکاوٹیں اور بڑھتی ہوئی تجارتی تحفظ پسندی کی وجہ سے غذائی افراط زر، عمومی افراط زر سے زیادہ رفتار سے بڑھی ہے۔ اس صورتحال سے ہندوستان جیسے ممالک متاثر ہوئے ہیں جہاں خوراک گھریلو کھپت کا ایک بڑا حصہ ہے۔ کووڈ-۱۹ اور روس۔یوکرین جنگ کی وجہ سے تاحال غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوئے ممالک کے علاوہ تنازعات اور موسمیاتی خلل کا سامنا کر رہے ممالک بھی اس صورتحال کے باعث بڑے پیمانے پر متاثر ہوگے۔ رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً ۳۴ کروڑ سے زائد افراد اب شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جن میں ۲۰ لاکھ افراد بنیادی طور پر تنازعات سے متاثرہ علاقوں جیسے غزہ پٹی، ہیٹی، مالی، جنوبی سوڈان اور سوڈان سے تعلق رکھتے ہیں اور قحط کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ء میں تقریباً۳۰۰؍ ملین افراد کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا: رپورٹ
۲۰۲۳ء میں صارفی قیمتوں میں اضافہ
رپورٹ کے مصنفین نے مشاہدہ کیا کہ افراط زر کا اثر غیر مساوی رہا ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں صارفی قیمتوں میں اضافے کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۴ء کے درمیان، ترقی یافتہ معیشتوں میں صارفی قیمتوں میں مجموعی طور پر تقریباً ۲۰ فیصد جبکہ ترقی پذیر معیشتوں میں ۳۵ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، جو گزشتہ پانچ سالہ عرصے کے اضافے سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ افریقہ، جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کے ممالک میں حالیہ برسوں میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ نوٹس کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، ان ممالک کے اندر بھی افراط زر میں تبدیلی نوٹ کی گئی اور اکثر اعلیٰ آمدنی والوں کے مقابلے غریب گھرانوں کے کھپت کے اخراجات میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ اس کی وجہ "کھپت کے نمونوں میں فرق" ہے کیونکہ ضروری اشیا اور خدمات، جن پر غریب گھرانے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں، نے سب سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ملک کی خردہ مہنگائی ۶؍ سال کی سب سے نچلی سطح پر، کم ہو کر ۱۶ء۳؍پر پہنچ گئی
عالمی سطح پر شرح نمو میں کمی
رپورٹ کے مطابق، ۲۰۲۵ء کیلئے عالمی جی ڈی پی کی شرح نمو کی پیش گوئی کو اب صرف ۴ء۲ فیصد کر دیا گیا ہے جو ۲۰۲۴ء کی ۹ء۲ فیصد سے کم ہے اور جنوری ۲۰۲۵ء کی پیش گوئی سے ۴ء۰ فیصد پوائنٹس کم ہے۔ ہندوستانی معیشت کی متوقع شرح نمو ۳ء۶ فیصد ہے جو ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷ فیصد سے کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان اب بھی بڑی معیشتوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والوں میں شامل ہے۔ امریکہ کی جی ڈی پی کی شرح نمو ۲۰۲۴ء میں ۸ء۲ فیصد سے کم ہو کر ۲۰۲۵ء میں ۶ء۱ فیصد تک نمایاں طور پر سست ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یورپی یونین میں یہ ایک فیصد پر برقرار رہے گی جبکہ چین کی شرح نمو ۶ء۴ فیصد تک سست ہو جائے گی۔ کئی دیگر بڑی ترقی پذیر معیشتیں جیسے برازیل، میکسیکو اور جنوبی افریقہ، کمزور تجارت، سست سرمایہ کاری اور خام اشیاء کی گرتی قیمتوں کی وجہ سے شرح نمو میں کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین نے زور دیا، "قواعد پر مبنی تجارتی نظام کو بحال کرنا اور کمزور ممالک کو ہدفی امداد فراہم کرنا پائیدار اور جامع ترقی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگا۔" انہوں نے مزید کہا کہ ۳۰ جون سے ۳ جولائی ۲۰۲۵ء تک اسپین کے شہر اشبیلیہ میں منعقد ہونے والی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس برائے ترقیاتی مالیات، ان مسائل کو حل کرنے اور قرضوں کی پائیداری کی طرف کام کرنے کیلئے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔