امریکی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ روسی تیل کی دوبارہ فروخت سے ہندوستان کے `امیر ترین خاندان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 20, 2025, 8:02 PM IST | Washington
امریکی وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ روسی تیل کی دوبارہ فروخت سے ہندوستان کے `امیر ترین خاندان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ ا سکاٹ بيسينٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو کی یوکرین جنگ کے دوران ہندوستان کے کچھ امیر ترین خاندان ہندوستان کی سستے روسی تیل کی خریداری اور دوبارہ فروخت سے منافع کما رہے ہیں۔ سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ایک انٹرویو میں بيسينٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فروری ۲۰۲۲ء میں شروع ہونے والی یوکرین جنگ سے پہلے ہندوستان کی روسی تیل کی درآمد ایک فیصد سے کم تھی جو بڑھ کر۴۲؍ فیصد فیصد ہو گئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے ہندوستانی کاروباریوں کو ۱۶؍ ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی منافع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بارہا الزام لگایا ہے کہ ہندوستان کی روسی تیل کی خریداری ’’جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہی ہے۔‘‘بيسينٹ نے ٹرمپ کے دعوے کو دہراتے ہوئے کہا: ’’ہندوستانی ’’آربیٹریج،‘‘ سستا روسی تیل خریدنا اور اسے مصنوعات کے طور پر دوبارہ فروخت کرنا، جنگ کے دوران شروع ہوا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
ہندوستان۲۰۲۳ء اور۲۰۲۴ء کے درمیان چین سے آگے نکلتے ہوئے روس کا سب سے بڑا کچے تیل کا درآمد کنندہ بن کر ابھرا۔ اس دوران ہندوستان کے روسی کچے تیل کی درآمد کا حصہ۳۰؍ فیصد سے بڑھ کر۳۴؍ فیصد ہو گیا، جبکہ چین کا حصہ۳۲؍ فیصد سے گھٹ کر۲۶؍ فیصد رہ گیا۔انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، مکیش امبانی کی قیادت والی ریلائنس انڈسٹریز سمیت ہندوستانی ریفائنری نے روسی کچے تیل کی رعایتی قیمتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے درآمدات بڑھائی ہیں، اور تیل کو ڈیزل اور جیٹ فیول جیسی مصنوعات میں تبدیل کرکے یورپی بازار میں برآمد کیا جا رہا ہے۔ بيسينٹ کے یہ بیان اس وقت سامنے آئے ہیں جب نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی کشیدگی جاری ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے روسی تیل کی خریداری پر ہندوستان سے درآمد ہونے والے سامان پر محصولات دوگنا کر کے۵۰؍ فیصد کر دیے ہیں۔محصولات میں یہ اضافہ اس کے ایک ہفتہ بعد آیا ہے جب ٹرمپ نے درجنوں ممالک پر اس وقت تک کے لیے۲۵؍ فیصد ٹیرف عائد کیے تھے جب تک کہ وہ امریکہ کے ساتھ الگ تجارتی معاہدے حتمی شکل نہیں دے دیتے۔
سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بيسينٹ نے واشنگٹن کے فیصلے کا دفاع کیا کہ اس نے چین پر جرمانہ عائد نہیں کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین جنگ کے آغاز سے بیجنگ کی روس سے خریداری میں معمولی اضافہ ہوا ہے جو۱۳؍ فیصد سے بڑھ کر۱۶؍ فیصد ہو گئی ہے، جبکہ ہندوستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے، چین جنگ سے پہلے بھی مسلسل روس سے تیل خرید رہا تھا، جبکہ ہندوستان نے جنگ کے دوران ایک ’’آربیٹریج‘‘ نظام قائم کیا ہے۔بيسينٹ کے بیان سے ایک دن قبل وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر اور ماہر معاشیات پیٹر نیوارو نے فنانشل ٹائمز کے ایک کالم میں الزام لگایا تھا کہ’’ ہندوستان میں روسی تیل کی درآمد میں اضافہ ہندوستان کی تیل لابی کی جانب سے منافع خوری کی وجہ سے ہوا ہے نہ کہ گھریلو تیل کی کھپت کی ضروریات کی وجہ سے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: نائب صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کا نہلے پر دہلا
ٹرمپ کے دوگنا محصولات کے جواب میں، نئی دہلی نے اس اقدام کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے کیونکہ ہندوستان کی طرز پر دیگر ممالک بھی اپنے قومی مفاد میں وہی اقدام کر رہے ہیں۔‘‘ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’’ہم دہراتے ہیں کہ یہ اقدامات غیر منصفانہ، غیر اور غیر معقول ہیں۔ ہندوستان اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔‘‘ دریں اثناء دونوں ممالک کے مذاکرات کاروں نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں بات چیت کا پانچواں دور مکمل کیا تھا، تاہم، ۲۵؍اگست کو نئی دہلی میں ہونے والے اگلے دور کو اچانک منسوخ کر دیا گیا تھا۔