Updated: December 15, 2025, 4:33 PM IST
| Dhaka
ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کے خدشات کے درمیان ایک بنگلہ دیشی سیاسی کارکن پر قاتلانہ حملے کے بعد، بنگلہ دیش نے اتوار کو ڈھاکہ میں ہندوستان کے سفیر کو طلب کیا تاکہ مبینہ طور پر مفرور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو فروری میں ہونے والے قومی انتخابات کو کمزور کرنے کی اجازت دینے پر تشویش ظاہر کی جا سکے۔
شیخ حسینہ۔ تصویر: آئی این این
ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کے خدشات کے درمیان ایک بنگلہ دیشی سیاسی کارکن پر قاتلانہ حملے کے بعد، بنگلہ دیش نے اتوار کو ڈھاکہ میں ہندوستان کے سفیر کو طلب کیا تاکہ مبینہ طور پر مفرور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو فروری میں ہونے والے قومی انتخابات کو کمزور کرنے کی اجازت دینے پر تشویش ظاہر کی جا سکے۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے حکام نے کہا کہ ہندوستانی ہائی کمشنر کو ڈھاکہ کی اس شدید تشویش سے آگاہ کیا گیا کہ حسینہ اور ان کے حامی ہندوستانی سرزمین سے بنگلہ دیش مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: چلی صدارتی الیکشن: انتہائی دائیں بازو کے جوز انتونیو کاسٹ صدر منتخب
وزارتِ خارجہ نے ہندوستان میں مقیم مفرور عوامی لیگ لیڈروں اور کارکنوں پر بھی تشویش ظاہر کی، اور الزام لگایا کہ وہ تشدد بھڑکانے اور انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کیلئے بنگلہ دیش کے اندر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی کوشش کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نے ہندوستان سے یہ تعاون بھی طلب کیا کہ حالیہ قاتلانہ حملے میں ملوث مشتبہ افراد کو ہندوستان فرار ہونے سے روکا جائے، اور اگر وہ ہندوستانی سرزمین میں داخل ہو جائیں تو ان کی فوری گرفتاری اور حوالگی کو یقینی بنایا جائے۔ شریف عثمان ہادی، جو۲۰۲۴ء کی گرمیوں کی بغاوت کے دوران ابھرنے والے نوجوان سیاسی لیڈروں میں سے ایک ہیں، جمعہ کو دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک شناخت شدہ عوامی لیگ کارکن کی جانب سے سر میں گولی لگنے کے بعد تاحال لائف سپورٹ پر ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی سرحدی جھڑپیں دوسرے ہفتے میں داخل، تھائی حکام کا جنگ بندی دعوے سے انکار
حملے سے قبل، ہادی نے عوامی طور پر کہا تھا کہ انہیں حسینہ کے مفرور حامیوں کی جانب سے درجنوں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ اتوار کو ڈھاکہ میں ایک بریفنگ کے دوران، ہادی کی طبی ٹیم کے ارکان نے کہا کہ ان کی ذاتی معلومات آن لائن افشا کر دی گئی ہیں اور انہیں ہندوستان سے آنے والے فون نمبرز کے ذریعے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ’’ایک ہمسایہ ملک کے طور پر، ہندوستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف کے قیام اور جمہوری عمل کے تحفظ میں بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ کھڑا ہو۔ ‘‘ہائی کمشنر پرنئے ورما نے کہا کہ ہندوستان بنگلہ دیش میں پُرامن انتخابات کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں تعاون بڑھانے کیلئے تیار ہے۔ عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد، بنگلہ دیشی حکام کے مطابق، پارٹی کے ہزاروں حامیوں کے ہندوستان میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ ڈھاکہ نے نئی دہلی سے مطالبہ کیا کہ وہ مناسب اقدامات کرے تاکہ اس کی سرزمین کو ایسی سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونے سے روکا جا سکے جو بنگلہ دیش کی سلامتی، استحکام اور جمہوری عمل کیلئے خطرہ بنیں۔
یہ بھی پڑھئے: دبئی میں مشرق وسطیٰ کا مہنگا ترین پینٹ ہاؤس تقریباً۱۵۰؍ ملین ڈالر میں فروخت
ہندوستانی وزارت خارجہ کا سخت رد عمل
ہندوستان نے اتوارکو کہا کہ اس نے کبھی بھی اپنی سرزمین کو بنگلہ دیش کے عوام کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی۔ یہ بیان اس کے بعد آیا جب ڈھاکہ نے الزام لگایا کہ معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ، جو اگست۲۰۲۴ء میں اپنے ملک میں احتجاجات کے بعد ہندوستان فرار ہو گئی تھیں، نے ’’اشتعال انگیز‘‘ بیانات دیئےہیں جو اپنے حامیوں کو فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو’’سبوتاژ‘‘ کرنے کیلئے’’دہشت گردانہ ‘‘حملے کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے اتوار کو ہندوستانی ہائی کمشنر پرنئے ورما کو طلب کیا تاکہ حسینہ کے مبینہ بیانات پر اپنی ’’شدید تشویش ‘‘سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ان کی’’فوری حوالگی‘‘ کے مطالبے کو بھی دہرایا۔
یہ بھی پڑھئے: سڈنی : یہودیوں پرحملہ، ۱۱؍ ہلاک ،مسلم شخص نے جان پر کھیل کر حملہ آور کو پکڑلیا
بعد ازاں دن میں، ہندوستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ نئی دہلی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت، جس کی قیادت محمد یونس کر رہے ہیں، کے الزامات کو ’’دو ٹوک انداز میں مسترد‘‘کرتا ہے۔ وزارت نے اس بات کو دہرایا کہ نئی دہلی نے ہمیشہ بنگلہ دیش میں آزاد، منصفانہ، شمولیتی اور قابلِ اعتماد انتخابات کی حمایت کی ہے جو پُرامن ماحول میں منعقد ہوں۔ وزارت نے کہا، ’’ہم توقع کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت امن و امان برقرار رکھنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے گی، جن میں پُرامن انتخابات کے انعقاد کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ ‘‘بتا دیں کہ شیخ حسینہ نے۵؍ اگست۲۰۲۴ء کو وزیرِاعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ہندوستان فرار ہو گئیں، جب ان کی عوامی لیگ حکومت کے خلاف کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے طلبہ کی قیادت میں احتجاجات ہوئے۔ وہ ۱۶؍ برس سے اقتدار میں تھیں۔ نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات محمد یونس نے حسینہ کے استعفے کے تین دن بعد عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالا۔ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش ان کی واپسی (حوالگی) کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ مطالبہ۱۷؍نومبر کو اس وقت باضابطہ درخواست بن گیا جب حسینہ اور سابق وزیرِ داخلہ اسدالزمان خان کمال کو ملک کے بین الاقوامی جرائم ٹریبونل نے سزائے موت سنائی۔ ٹریبونل نے احتجاجات کے دوران خونریز کریک ڈاؤن پر حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔ یہ فیصلہ چار مقدمات کی ایک سلسلہ وار کارروائی کا پہلا تھا، جو ان کی حکومت کے دوران تحریک کے خلاف کارروائی سے متعلق مبینہ جرائم پر مشتمل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارہ میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں ریکارڈ اضافہ: اقوام متحدہ کی رپورٹ
حسینہ نے ٹریبونل کو جانبدار اور سیاسی محرکات پر مبنی قرار دیا اور مظاہرین پر فائرنگ کے احکامات دینے کی تردید کی۔ فروری میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ حسینہ کی حکومت، ملک کی سیکوریٹی اور انٹیلی جنس سروسیز اور ان کی عوامی لیگ سے وابستہ ’’پرتشدد عناصر‘‘نے۲۰۲۴ء کی تحریک کے دوران ’’منظم طور پر سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ‘‘ میں ملوث رہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یکم جولائی۲۰۲۴ء سے۱۵؍ اگست۲۰۲۴ء کے درمیان۱۴۰۰؍ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے جن میں اکثریت کو بنگلہ دیش کی سیکوریٹی فورسیز نے گولی ماری۔ ان میں سے۱۲؍ سے۱۳؍ فیصد ہلاک ہونے والے بچے تھے۔ بنگلہ دیش میں ۱۲؍فروری کو۱۳؍ویں قومی انتخابات بھی متوقع ہیں۔ یونس نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ ملک میں آخری انتخابات جنوری۲۰۲۴ء میں ہوئے تھے جب حسینہ مسلسل چوتھی مدت کیلئے اقتدار میں واپس آئیں۔ عوامی لیگ نے پارلیمان کی ۳۰۰؍منتخب نشستوں میں سے۲۲۲؍ نشستیں حاصل کیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ ووٹ ان کے اہم سیاسی حریفوں نے بائیکاٹ کیا تھا، جنہوں نے ان کی انتظامیہ پر نتائج میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ مئی میں، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ملک کے انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت عوامی لیگ کی تمام سرگرمیوں، بشمول اس کے آن لائن پلیٹ فارمز، پر پابندی عائد کر دی۔
یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب : ایک ہفتے میں ۱۲۳۶۵؍ غیر قانونی مقیم افراد ملک بدر
حسینہ نے اکتوبر میں اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اس سے ووٹ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ان کی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو ان کے لاکھوں حامی عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا، ’’اگلی حکومت کو انتخابی جواز حاصل ہونا چاہئے۔ لاکھوں لوگ عوامی لیگ کی حمایت کرتے ہیں، اس لئے موجودہ صورتحال میں وہ ووٹ نہیں دیں گے۔ اگر آپ ایسا سیاسی نظام چاہتے ہیں جو کارآمد ہو، تو آپ لاکھوں لوگوں کو حقِ رائے دہی سے محروم نہیں کر سکتے۔ ‘‘