Updated: June 13, 2025, 10:02 PM IST
| Gaza
عینی شاہدين کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو امدادی مراکز پر ایک گھنٹہ قبل پہنچنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ جمع ہوتے ہیں، امدادی ٹرکوں کے آنے سے پہلے ہی گولیاں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہاں شناختی کارڈ چیک نہیں کئےجاتے، بس بھوک اور موت کے خلاف ایک خوفناک دوڑ کا منظر ہوتا ہے۔
غزہ کے ایک امدادی مرکز کا منظر۔ تصویر: آئی این این
غزہ میں خوراک حاصل کرنا موت سے کھیلنے کے مترادف ہو گیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جن مقامات کو ’انسانی امدادی راہداریاں‘ کہتے ہیں، وہ فلسطینیوں کیلئے قتل گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ خوراک حاصل کرنے کیلئے جمع ہونے والے فلسطینیوں کو ان نام نہاد"انسانی امدادی مراکز" پر افراتفری اور گولیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ قدس نیوز نیٹ ورک (کیو این این) نے شہریوں سے گفتگو کی جس میں شمالی غزہ کے نام نہاد امدادی مراکز پر جاری موت کے کھیل کی خوفناک تصاویر سامنے آئی ہیں۔ یہ مراکز اسرائیلی اور امریکی فوجوں نے قائم کئے ہیں جو حفاظت کی بجائے مایوسی اور خونریزی کی علامت بن گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ: غزہ میں "فوری جنگ بندی" کی قرارداد منظور، امریکہ، اسرائیل تنہا رہ گئے، ہندوستان غیرحاضر
"جو تیزی سے دوڑتا ہے، وہی کھاتا ہے"
غزہ جنگ میں بے گھر ہوچکے فلسطینی شہری یاسر ایاد، امدادی مراکز سے تھوڑی مقدار میں آٹا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ایاد نے بتایا کہ امدادی مراکز پر کوئی قطار، اندراج یا نظام نہیں ہے۔ وہاں بس بقاء کی جنگ کا منظر ہوتا ہے۔ خوراک تک پہنچنے سے پہلے ٹینکوں پر فوجی فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اسنائپرز اور ڈرونز فعال ہوجاتے ہیں اور جو حرکت کرے یا اوپر دیکھے، وہ ان کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ بھگدڑ اور افراتفری کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں کوئی نظام نہیں ہے، بس بھگڈر کا سماں ہوتا ہے۔ اگر آپ ہچکچائیں گے تو بھوکوں مرجائیں گے۔ ایاد نے کہا کہ جو گھر واپس آتے ہیں، وہ خوش نصیب ہیں۔ لیکن خوش نصیب بھی ڈراؤنی اور خوفناک یادوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔
عینی شاہدين کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو امدادی مراکز پر ایک گھنٹہ قبل پہنچنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ جمع ہوتے ہیں، امدادی ٹرکوں کے آنے سے پہلے ہی گولیاں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہاں شناختی کارڈ چیک نہیں کئےجاتے، بس بھوک اور موت کے خلاف ایک خوفناک دوڑ کا منظر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امدادای مراکز پر حملوں میں اضافہ، غزہ کا نظامِ صحت ’انتہائی نازک‘موڑ پر
"ہم خون میں روٹی ڈبو کر کھاتے ہیں"
چار بچوں کی والدہ ام امیر امدادی مراکز تک پہنچنے کیلئے کئی دفعہ ۶ کلومیٹر سے زائد فاصلہ تک پیدل چل چکی ہیں۔ ہر بار ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔ ام امیر نے بتایا کہ امدادی مراکز کے اطراف آسمان میں ڈرون چکر لگاتے ہیں۔ لوگوں کے قریب پہنچنے سے پہلے ان پر فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کے پاس مردہ اور زخمی لوگ گرنے لگتے ہیں۔ ہم اس خونریزی سے گزر کر خوراک حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے بھائی سلیمان کو خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں پیر میں گولی لگ چکی ہے۔ وہ ابھی تک سرجری کا انتظار کر رہا ہے کیونکہ اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
ام امیر نے مزید بتایا کہ ڈرونز پر نصب لاؤڈ اسپیکروں سے لوگوں کو حرکت کرنے کی ہدایت ملتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس پر عمل کرتے ہیں، فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہ امداد نہیں ہے۔ ہم خون میں روٹی ڈبو کر کھاتے ہیں۔ کبھی کبھار ام امیر کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے، کبھی انہیں بچا کچا چُورا ملتا ہے تو کبھی صرف مُردوں کی یادیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں تباہی پر مانچسٹرسٹی کے منیجر پیپ گارڈیولا کی جذباتی تقریر، سوڈان،یوکرین،کانگو کا بھی ذکر کیا
"مہلک معمول"
غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق، ان نام نہاد انسانی امدادی مراکز پر اب تک کم از کم ۱۶۳ فلسطینی جاں بحق اور تقریباً ۱۵۰۰ زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف)، جو ان مراکز کا انتظام سنبھالتا ہے، اسرائیلی فوج کی نگرانی میں کام کرنے پر تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین، جی ایچ ایف پر الزام لگا رہے ہیں کہ امدادی ادارہ مایوس شہریوں کو امدادی آپریشن کے نام پر مہلک جال میں پھنسا رہا ہے۔ جو مراکز زندگیاں بچانے کیلئے قائم کئے گئے ہیں، وہ تیزی سے جنگ کے میدان بنتے جارہے ہیں۔
ہر امدادی تقسیم کے ساتھ، امداد اور حملے کے درمیان فرق مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ آج غزہ میں بھوک صرف ایک بحران نہیں، بلکہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک خطرناک ہتھیار بن چکا ہے۔