Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل: ۸۲؍ فیصد اسرائیلی غزہ میں نسل کشی اور فلسطینیوں کی بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں: رپورٹ

Updated: May 27, 2025, 9:03 PM IST | Inquilab News Network | Tel Aviv

ایک تازہ سروے کے مطابق، ۸۲ فیصد یہودی اسرائیلی، غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ۵۶ فیصد افراد اسرائیل کے عرب شہریوں کی بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء کے مقابلے، ایسے افراد کی تعداد میں بالترتیب ۴۵ فیصد اور ۳۱ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اسرائیلی اخبار ہاریٹز میں شائع ہوئے ایک تازہ سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی باتیں، جو کبھی اسرائیل کے انتہا پسند آباد کاروں تک محدود تھیں، اب عام ہو گئی ہیں اور نسلی صفائی، قتل، اور بائبلی انتقام کیلئے عوامی حمایت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ جیو کارٹوگرافی نالج گروپ کی جانب سے پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کیلئے مارچ ۲۰۲۵ء میں ایک ہزار سے زائد یہودی اسرائیلیوں کے درمیان اس سروے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سروے اسرائیلی معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے جہاں مذہبی قوم پرستی میں شدت آئی ہے اور جنگ سے مزید جرأت مند ہوگئی ہے۔

سروے کے مطابق، ۸۲ فیصد یہودی اسرائیلی، غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ۵۶ فیصد افراد، اسرائیل کے عرب شہریوں کی بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء کے اسی نوعیت کے ایک سروے کے اعدادوشمار کے مقابلے، ایسے افراد کی تعداد میں بالترتیب ۴۵ فیصد اور ۳۱ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ وقت آگیا ہے کہ اسرائیل پر پابندیاں لگائی جائیں‘‘

جب سروے میں شریک افراد سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ اس خیال کی حمایت کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) دشمن کے شہر پر قبضہ کرتے وقت وہاں کے تمام باشندوں کو قتل کرے گی جیسا کہ یروشلم میں یشوع کے تحت بنی اسرائیل نے کیا تھا؟ تو تقریباً نصف افراد نے ہاں میں جواب دیا۔ مجموعی طور پر، ۴۷ فیصد افراد نے یروشلم کی بائبلی فتح کو دہرانے کی حمایت کی جس میں دشمن کے شہر کے تمام باشندوں (موجودہ دور میں غزہ کے تمام فلسطینیوں) کو قتل کیا گیا تھا۔

سروے کے مطابق، ہر تین میں سے دو اسرائیلی (یعنی تقریباً ۶۶ فیصد) مانتے ہیں کہ آج عمالیق، یہودیوں کا بائبلی دشمن، کا جدید ورژن موجود ہے۔ ان میں سے ۹۳ فیصد کا خیال ہے کہ عمالیق کو نابود کرنے کا بائبلی حکم اب بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ سروے اس وقت سامنے آیا جب محصور فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۴ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیلی لیڈران نے بارہا فلسطینیوں کو "عمالیق" پکارا ہے اور فوجی لیڈران نے اس جنگ کو بائبلی فریضہ قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں شہیدوں کی تعداد ۵۴؍ ہزار کا ہندسہ پار کرگئی

عمالیق کون ہیں؟

عمالیق، بنی اسرائیل کا "بائبلی دشمن" ہے۔ عہد نامہ قدیم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس نے مصر سے خروج کے بعد ان پر حملہ کیا تھا۔ کتاب استثنا کے مطابق، خدا نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ "عمالیق کی یاد کو آسمان کے نیچے سے مٹا دیں" اور "اسے نہ بھولیں"۔ اس دعوت کو تاریخی طور پر کچھ لوگوں نے مکمل تباہی کے الہی حکم کے طور پر تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف بہت سے یہودی اسکالرز عمالیق کو علامتی یعنی شر کے مظہر کے طور پر سمجھتے ہیں۔ 

انتہائی دائیں بازو کے مذہبی لیڈران جیسے ربی یتزچک گنزبرگ دعویٰ کرتے ہیں کہ عمالیق آج فلسطینیوں کی شکل میں موجود ہے۔ یہ عقیدہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کیلئے مذہبی جواز فراہم کرتا ہے اور "عمالیق کو مٹانے" کو مقدس فریضہ قرار دیتا ہے۔ جدید استعمال میں، یہ اصطلاح ایک مذہبی ہتھیار بن چکی ہے۔ جنگ، انتقام اور تباہی کو محض سیاسی یا فوجی مقاصد کے بجائے الہی احکام کے طور پر پیش کرنے کیلئے اس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ نسل کشی کی وجہ سے وزارت دفاع کا بجٹ ختم، پارلیمنٹ میں اسرائیلی حکام میں جھڑپ

انتہا پسندی کو معمول بنایا جارہا ہے

ربی یتزچک گنزبرگ جیسی مذہبی شخصیات، جو کبھی غیر اہم سمجھی جاتی تھیں، اب اسرائیل میں نظریاتی طور پر غالب نظر آتی ہیں۔ گنزبرگ، جو یتزھر کے غیر قانونی آبادی میں اود یوسف چائی یشیوا کے امریکی نژاد سربراہ ہیں، نے غیر یہودیوں کے قتل کی حمایت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانوں کی قیمت کم ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کو روحانی آلودگی قرار دیا اور اسرائیلی فوج کے ذریعے انسانی حقوق اور تحمل سے انہیں "پاک" کرنے پر زور دیا۔

گنزبرگ کے نظریے کے مرکز میں ان کا خطبہ اور کتاب "دی ٹائم ٹو کریکنگ دی نٹ" ہے جو اسرائیل کے سیکولر جمہوری ڈھانچوں، جنہیں حفاظتی "خول" سے تشبیہ دی گئی ہے، کو ختم کرنے اور غیر یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے مسیحائی دور کیلئے تیاری کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ وہ ایک "نٹ کریکر" کا تصور پیش کرتے ہیں: ایک یہودی جو اخلاقی پابندیوں کے بغیر، انتقام کے جذبے کے ساتھ سرگرم ہو۔ گنزبرگ نے بارک گولڈسٹین کی تعریف کی، جو غیر قانونی آباد کار تھا اور اس نے ہیبرون کی ابراہیمی مسجد میں ۲۹ فلسطینیوں کو قتل کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ تین "ناپاک خول" یعنی میڈیا، عدلیہ، اور حکومت کو توڑنا ہوگا اور فوج کو بھی غیر ملکی اخلاقی اثر سے "باہر" نکالنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے: اقتدار میں رہنے کیلئے وزیراعظم فوجیوں کو قربان کر رہے ہیں: یائیر غولان

ہارٹز کے مطابق، اسرائیلی میڈیا، جو گنزبرگ کے استعارے میں "پہلا خول" تھا، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء، جس دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، کے بعد سے تنقیدی کوریج چھوڑ چکا ہے اور انتقام اور بے دخلی کے مطالبات کو دہرا رہا ہے۔ عدلیہ بھی مذہبی قوم پرستی کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئی ہے: سپریم کورٹ کے جج ڈیوڈ منٹز نے حال ہی میں غزہ پر جنگ کو "واجب بائبلی جنگ" قرار دیا تاکہ انسانی امداد سے انکار کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ تعلیم کے میدان میں، انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستانہ نصاب نے نوجوانوں کے رویوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب صرف ۹ فیصد یہودی اسرائیلی مرد، جو ۴۰ سال سے کم عمر ہیں، بڑے پیمانے پر بے دخلی یا تباہی کے خیالات کو مسترد کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK