Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ کا غزہ میں ’حقیقی بھکمری‘ کا اعتراف، نیتن یاہو سے اختلاف، فوڈ سینٹرز قائم کرنے کا اعلان

Updated: July 29, 2025, 9:04 PM IST | London/Gaza

ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کے بگڑتے ہوئے بحران کی ”بہت بڑی ذمہ داری“ اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ امریکہ اور برطانیہ مشترکہ طور پر نئے فوڈ ریلیف نیٹ ورک کو مالی امداد فراہم کریں گے۔

U.S. President Donald Trump. Photo: INN
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کو اعتراف کیا کہ غزہ میں فلسطینی شہری ”حقیقی بھکمری“ کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے محصور فلسطینی علاقے میں فوڈ سینٹرز قائم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا جہاں ’لوگ بغیر کسی حد کے داخل ہو سکیں گے۔‘ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے انسانی تباہی کا یہ ٹرمپ کا سب سے واضح اعتراف ہے۔

اسکاٹ لینڈ میں اپنے گالف ریزارٹ میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت، سب سے پہلے بچوں کو کھانا کھلانے پر توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”اس سے پہلے کہ ہم کچھ کریں، ہمیں بچوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ وہاں حقیقی بھکمری ہے۔ آپ اس کا دکھاوا نہیں کر سکتے۔ ہم بہت سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں۔“ ٹرمپ نے مزید کہا کہ بگڑتے ہوئے بحران کی ”بہت بڑی ذمہ داری“ اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ امریکہ اور برطانیہ مشترکہ طور پر نئے فوڈ ریلیف نیٹ ورک کو مالی امداد فراہم کریں گے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل مغربی کنارے کے۸۴؍ فیصد آبی وسائل پر قابض، فلسطینی بحران کا شکار

ٹرمپ کا بھوک کے بحران پر نیتن یاہو سے اختلاف

ٹرمپ کے بیان سے غزہ میں بھکمری کے موضوع پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ان کا اختلاف صاف ظاہر ہوگیا جنہوں نے پیر کو اصرار کیا تھا کہ ”غزہ میں کوئی بھوک نہیں ہے۔“ انہوں نے حماس کی شکست تک جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا۔ لیکن، ٹرمپ نے نیتن یاہو کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”وہاں بڑی تعداد میں لوگ بھوکے ہیں۔“ انہوں نے اعلان کیا کہ ”ہم غزہ میں فوڈ سینٹرز قائم کرنے جا رہے ہیں، کچھ بہت اچھے لوگوں کے ساتھ ہم یہ کام کریں گے اور ہم انہیں فنڈز فراہم کریں گے۔“ امریکی صدر نے مزید کہا کہ دیگر ممالک پہلے ہی اس اقدام میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ پورے علاقے میں خوراک کی رسائی اور صفائی کو وسعت دی جا سکے۔

غزہ میں امداد کی کمی کے باعث بھوک سے اموات میں اضافہ

غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ گزشتہ ۲۴ گھنٹوں میں بھوک اور غذائی قلت سے کم از کم ۱۴ مزید اموات ہوئی ہیں۔ حالیہ اموات کے بعد، مارچ کے آغاز سے اب تک بھوک سے ہوئی اموات کی تعداد ۱۴۷ تک پہنچ گئی ہے جن میں ۸۸ بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ تقریباً ۴ لاکھ ۷۰ ہزار فلسطینی، قحط جیسی صورتحال میں رہ رہے ہیں جن میں ۹۰ ہزار خواتین اور بچوں کو فوری طور پر علاج کیلئے خوراک کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ کیلئے انسانی امدادکی بڑی مقدار کوتباہ کرچکا ہے

نارویجیئن رفیوجی کونسل کے سربراہ جان ایگلینڈ نے غزہ کی صورتحال کو ”تباہ کن“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ محصور علاقے میں قحط کی ذمہ داری مکمل طور پر انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ایگلینڈ نے رائٹرز کو بتایا کہ ”وہاں بچے ہر روز بھوک اور ایسی بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں جن کا علاج کیا جا سکتا ہے۔“

غزہ میں شہری خوراک حاصل کرنے کیلئے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔ ایک فیکٹری کے سابق مالک عماد کا کہنا ہے کہ ”فی الحال، امداد مضبوط لوگوں کو ملتی ہے جو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس افراتفری کو روکا جانا چاہئے۔ ہمیں محفوظ ترسیل کی ضرورت ہے۔“

ڈبلیو ایف پی نے بتایا کہ اس کے پاس غزہ کے باہر ایک لاکھ ۷۰ ہزار میٹرک ٹن خوراک کا ذخیرہ تیار ہے جو غزہ کی پوری آبادی کو تین ماہ تک کھانا کھلانے کیلئے کافی ہے لیکن رسائی کی پابندیوں کی وجہ سے یہ امداد تاحال رکی ہوئی ہے اور علاقے میں داخل نہیں ہوپائی ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے علاقائی ڈائریکٹر ثمر عبدالجابر کا کہنا ہے کہ غزہ کو علامتی فضائی ترسیل کی ضرورت نہیں ہے، اسے بغیر کسی پابندی کے زمینی رسائی اور روزانہ ۱۰۰ امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ہر ۳؍میں سےایک فلسطینی کئی دنوں سے بھوکا:یو این، ۲۳ لاکھ کی آبادی کیلئے یومیہ ۶۰۰؍ ٹرک امدادکی ضرورت

غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی

۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً ۶۰ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ نسل کشی کی جنگ کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ کے عوام نے جو دکھ برداشت کئے، وہ پوری امت نہیں کرسکی‘‘

گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل اپنی جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK