Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی حکومت، نیتن یاہو اور فوج پر عوامی اعتماد میں کمی آ رہی ہے: حالیہ سروے میں انکشاف

Updated: August 05, 2025, 2:15 PM IST | Tel Aviv

سروے میں شامل ۷۶ فیصد افراد کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو حکومت پر ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو پر ذاتی اعتماد ۳۵ فیصد سے گر کر ۳۰ فیصد ہو گیا ہے۔

Benjamin Netanyahu. Photo: INN
بنجامن نیتن یاہو۔ تصویر: آئی این این

تل ابیب کی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکوریٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) کی جانب سے کئے گئے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں گزشتہ ۲۲ ماہ سے جاری جنگ اور جون ۲۰۲۵ء میں ایران کے ساتھ ۱۲ روزہ جنگ کے بعد اسرائیلی حکومت، فوج اور قیادت پر عوامی اعتماد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سروے میں شامل ۷۶ فیصد اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ دسمبر ۲۰۲۲ء سے برسر اقتدار وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی حکومت پر ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ اس سے قبل، ایران کے ساتھ ۱۳ جون کو شروع ہونے والے تنازع کے دوران، حکومت پر عوامی اعتماد کی شرح ۳۰ فیصد تھی جو اب نمایاں کمی کے بعد ۲۳ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ نیتن یاہو پر ذاتی اعتماد بھی ۳۵ فیصد سے گر کر ۳۰ فیصد ہو گیا ہے۔

سروے کے نتائج، اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے تئیں عوام کے اعتماد میں متوازی کمی کو بھی دکھاتے ہیں۔ فوج پر عوامی اعتماد ۸۳ فیصد سے کم ہو کر ۷۷ فیصد پر پہنچ گیا ہے جبکہ چیف آف اسٹاف ایال زمیر پر عوام کا اعتماد ۷ فیصد کمی کے بعد ۶۲ فیصد ہو گیا ہے۔ اسی طرح، آئی ڈی ایف کے ترجمان کے تئیں اعتماد میں بھی کمی آئی ہے جو ۶۳ فیصد سے کم ہو کر ۵ء۵۶ فیصد پر پہنچ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی دوغلی پالیسی، غزہ پرپھر حملہ اور محاصرہ کی دھمکی

غزہ جنگ کے تئیں بڑھتی مایوسی

سروے میں غزہ میں جاری جنگ کے تئیں بڑھتی ہوئی مایوسی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور نتائج کے مطابق، تقریباً ۵۳ فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ غزہ میں فوج کے بنیادی مقاصد، حماس کی حکمرانی کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی واپسی، زیادہ تر یا مکمل طور پر حاصل ہو چکے ہیں۔ تقریباً ۲۸ فیصد افراد کو اب غزہ میں فتح کا امکان نظر نہیں آتا اور ۴۲ فیصد افراد کو شک ہے کہ جنگ کے مقاصد کسی بھی طرح حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت کا اندازہ ہے کہ اس وقت، غزہ میں تقریباً ۵۰ یرغمال موجود ہیں جن میں سے صرف ۲۰ کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ اپوزیشن اور یرغمالوں کے خاندانوں سمیت حکومت کے ناقدین، نیتن یاہو پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کو خوش کرنے اور سیاسی نتائج سے بچنے کیلئے جنگ کو طول دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو نے ہمیں بھوکا، لاوارث چھوڑ دیا ہے: غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالی

سروے کے نتائج میں، یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات اور حماس کو غیر مسلح کرنے کے معاملے پر عوام میں گہری تقسیم کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ سروے میں شامل ۵۲ فیصد افراد، جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے مذاکرات کی ناکامی کا الزام حکومت پر لگاتے ہیں جبکہ ۴۵ فیصد افراد اس کیلئے صرف حماس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ غزہ کی جنگجو تنظیم کو غیر مسلح کرنے کے بارے میں، ۵۲ فیصد افراد اسے ممکن سمجھتے ہیں جبکہ ۵ء۴۱ فیصد افراد کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، ۶۱ فیصد جواب دہندگان کا کہنا ہے کہ فوج کی موجودہ حکمت عملی یرغمالیوں کو گھر واپس لانے میں مددگار نہیں ہے۔ صرف ۵ء۲۰ فیصد افراد کا ماننا ہے کہ فوج کی حکمت عملی حماس کو ختم کرنے میں معاون ہے۔ تقریباً ۲۵ فیصد افراد کا خیال ہے کہ یہ دونوں مقاصد کو حاصل کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اہل غزہ کوروزانہ ۶۰۰؍ امدادی ٹرکوں کی ضرورت

غزہ نسل کشی

اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک ۶۰ ہزار ۴۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکی ایوان میں ڈیموکریٹس کا ٹرمپ سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کا مطالبہ

گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل غزہ جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK