Updated: December 26, 2025, 12:12 PM IST
| Mascow
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان جاری ہونے والے خفیہ ٹرانسکرپٹس سے انکشاف ہوا ہے کہ دونوں لیڈران کو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور ان کے پھیلاؤ پر شدید تشویش تھی۔ یہ دستاویزات پاکستان کے جوہری پروگرام کو عالمی عدم پھیلاؤ کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر اجاگر کرتی ہیں۔
پوتن اور بش کی ایک پرانی تصویر۔تصویر: آئی این این
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان ہونے والی گفتگو کے لفظ بہ لفظ (وربیٹم) نئے جاری ہونے والے ٹرانسکرپٹس، جو اس ہفتے ’’نیشنل سیکوریٹی آرکائیو‘‘ نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ (FOIA) کے تحت دائر مقدمے کے بعد عوام کے سامنے رکھے، اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں لیڈروں کو ابتدا ہی سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور ان کے ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک تک پھیلاؤ کے خطرات پر گہری تشویش تھی۔
یہ دستاویزات، جو ۲۰۰۱ءسے۲۰۰۸ء کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں اور ٹیلی فونک گفتگو پر مشتمل ہیں، اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ دونوں لیڈر پاکستان کو جو اس وقت فوجی حکمران پرویز مشرف کے زیرِ اقتدار تھاعدم پھیلاؤ (نان پرو لیفریشن) کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ سمجھتے تھے، حالانکہ ۹/۱۱؍ کے بعد دہشت گردی کے خلاف تعاون پر مبنی ایک قریبی شراکت بھی قائم ہو چکی تھی۔ ۱۶؍ جون۲۰۰۱ء کو سلووینیا کے برڈو کیسل میں پہلی بالمشافہ ملاقات کے دوران پوتن نے پاکستان کی داخلی صورتحال پر کھل کر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے بش سے کہا:’’مجھے پاکستان کے بارے میں فکر ہے۔ یہ دراصل ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ایک فوجی جنتا ہے۔ یہ کوئی جمہوریت نہیں، پھر بھی مغرب اس پر تنقید نہیں کرتا۔ اس پر بات ہونی چاہئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: نیو یارک: ٹائمز اسکوائر میں ’’جیسس اِس پیلسٹینین‘‘ بل بورڈ، سیاحوں کا ملا جلا ردعمل
یہ گفتگو اسٹریٹجک استحکام، میزائل ڈیفنس، ایران، شمالی کوریا اور نیٹو کی توسیع جیسے موضوعات پر تبادلۂ خیال کے دوران ہوئی۔ بش نے روس کو ’’مغرب کا حصہ اور دشمن نہیں ‘‘ قرار دیا، جبکہ دونوں لیڈران نے ایک دوسرےکیلئے باہمی احترام کا اظہار کیا۔ بعد ازاں بش نے مشہور جملہ کہا کہ انہوں نے پوتن کی آنکھوں میں جھانکا اور انہیں قابلِ اعتماد پایا۔
ستمبر۲۰۰۵ء میں، وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران جس کا مرکز عدم پھیلاؤ اور ایران و شمالی کوریا کے حوالے سے تعاون تھا گفتگو واضح طور پر ایران کی جوہری سرگرمیوں میں پاکستانی کردار کے شواہد کی طرف مڑ گئی۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش مسلمانوں، ہندوؤں، بدھسٹوں اور عیسائیوں کا ہے: طارق رحمان
۲۰۰۵ءکا ٹرانسکرپٹ:
پوتن:’’لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ (ایران کی) لیبارٹریوں میں کیا ہے اور وہ کہاں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعاون اب بھی موجود ہے۔ ‘‘
بش:’’میں نے مشرف سے اس بارے میں بات کی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمیں ایران اور شمالی کوریا کو منتقلی پر تشویش ہے۔ انہوں نے اے کیو خان کو جیل میں ڈال دیا اور اس کے چند ساتھیوں کو بھی گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا۔ میں مشرف کو بار بار یاد دلاتا رہتا ہوں۔ یا تو اسے کچھ نہیں مل رہا، یا وہ پوری بات نہیں بتا رہا۔ ‘‘
پوتن:’’میری سمجھ کے مطابق، انہوں نے سینٹری فیوجز میں پاکستانی نژاد یورینیم پایا ہے۔ ‘‘
بش:’’ہاں، وہی مواد جس کے بارے میں ایرانیوں نے آئی اے ای اے کو بتانا بھول گئے تھے۔ یہ ایک خلاف ورزی ہے۔ ‘‘
پوتن:’’یہ پاکستانی نژاد تھا۔ یہ مجھے پریشان کرتا ہے۔ ‘‘
بش:’’یہ ہمیں بھی پریشان کرتا ہے۔ ‘‘
پوتن:’’ہمیں بھی مدنظر رکھیں۔ ‘‘
بش:’’ہمیں مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار نہیں چاہئیں۔ ایران میں یہی لوگ حکومت چلا رہے ہیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: نیویارک: ۶۹؍ سالہ شخص نے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر سب کو حیران کر دیا
یہ بے باک گفتگو اے کیو خان کے پھیلاؤ نیٹ ورک پر مشترکہ تشویش کو ظاہر کرتی ہے وہ پاکستانی سائنسداں جس نے متعدد ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا اعتراف کیا اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نظام کی کمزوری کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ٹرانسکرپٹس میں دونوں صدور کے درمیان ابتدائی دور کی ’’فاکس ہول‘‘ جیسی رفاقت دکھائی دیتی ہے، جب۹/۱۱؍حملوں کے بعد بش نے پوتن کو ’’وہ شخص جسے میں اپنے ساتھ مورچے میں دیکھنا پسند کروں گا‘‘قرار دیا۔
یہ دستاویزات اس ہفتے کے آغاز میں نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈز ایڈمنسٹریشن (NARA) کی جانب سے کارروائی کے بعد جاری کی گئیں، جو ان اعلیٰ سطحی بات چیت پر نایاب روشنی ڈالتی ہیں جنہوں نے امریکہ اور روس کے درمیان عدم پھیلاؤ کے حوالے سے تعاون کی بنیاد رکھی، اس سے پہلے کہ تعلقات عراق، نیٹو کی توسیع اور میزائل ڈیفنس جیسے معاملات پر بگڑ جائیں۔ نیشنل سیکوریٹی آرکائیو، جو جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے وابستہ ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارہ ہے، نے ان ٹرانسکرپٹس کی ڈی کلاسیفیکیشن میں تیزی لانے کیلئے’’این اے آر اے‘‘ کے خلاف FOIA مقدمہ دائر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارے کی غیرقانونی بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کی ۱۴؍ ممالک کی مذمت
پاکستان کے عدم پھیلاؤ پر ہندوستان کے خدشات
ہندوستان طویل عرصے سے پاکستان کے جوہری پھیلاؤ کے ریکارڈ پر تشویش ظاہر کرتا آ رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں، امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کے جواب میں کہ پاکستان خفیہ جوہری تجربات کر رہا ہے، ہندوستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نومبر۲۰۲۵ء کو کہا تھا ’’خفیہ اور غیر قانونی جوہری سرگرمیاں پاکستان کی تاریخ کے عین مطابق ہیں، جو دہائیوں پر محیط اسمگلنگ، برآمدی کنٹرول کی خلاف ورزیوں، خفیہ شراکت داریوں، اے کیو خان نیٹ ورک اور مزید پھیلاؤ پر مبنی رہی ہے۔ ‘‘انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان مسلسل عالمی برادری کی توجہ پاکستان کے جوہری عدم شفافیت اور پھیلاؤ کے ریکارڈ کی طرف مبذول کراتا رہا ہے اور اسے خطے کی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ مئی کے تنازعے کے بعد، ہندوستان کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سلامتی پر سخت سوال اٹھاتے ہوئے اسے ’’غیر ذمہ دار اور آوارہ ریاست‘‘ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں رکھا جائے۔