اس تجویز کے تحت، غزہ سے منتقل ہونے والے ہر فلسطینی کو ۵؍ ہزار ڈالر کی امداد، چار سال تک کرایہ میں سبسڈی اور ایک سال کیلئے کافی خوراک فراہم کی جائے گی۔
EPAPER
Updated: September 02, 2025, 10:00 PM IST | Washington
اس تجویز کے تحت، غزہ سے منتقل ہونے والے ہر فلسطینی کو ۵؍ ہزار ڈالر کی امداد، چار سال تک کرایہ میں سبسڈی اور ایک سال کیلئے کافی خوراک فراہم کی جائے گی۔
امریکی روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، فلسطینی محصور علاقے غزہ کیلئے جنگ کے بعد ایک وسیع حکمت عملی پر ٹرمپ انتظامیہ غور کررہی ہے جس کے تحت علاقے کے ۲۰ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے اور غزہ کو امریکہ کے زیرِ انتظام ایک اقتصادی اور سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
”غزہ ری کانسٹیٹیوشن، اکنامک ایکسیلریشن اینڈ ٹرانسفارمیشن ٹرسٹ“ (Gaza Reconstitution, Economic Acceleration and Transformation Trust-GREAT) کے عنوان سے ۳۸ صفحات پر مشتمل دستاویز، میں غزہ کی ۱۰ سالہ انتظامیہ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کی قیادت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس منصوبے میں غزہ کو ایک ہائی ٹیک صنعتی زون اور پرتعیش سیاحتی مقام بنایا جائے گا جس میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے چلنے والے اسمارٹ شہر، ساحلی ریزارٹس، ڈیٹا سینٹرز اور الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کی فیکٹریاں شامل ہیں۔
اس تجویز کے تحت، غزہ کی تعمیر نو کے دوران رہائشیوں کو عارضی طور پر، یا تو بیرون ملک یا غزہ کے اندر محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا ہے۔ منتقل ہونے والے ہر فلسطینی کو ۵؍ ہزار ڈالر کی امداد، چار سال تک کرایہ میں سبسڈی اور ایک سال کیلئے کافی خوراک فراہم کی جائے گی۔ اس کے بدلے، زمین مالکان کو ڈجیٹل ٹوکن جاری کئے جائیں گے جو نئے تعمیر شدہ اسمارٹ شہروں میں جائیداد کے بدلے قابلِ استعمال ہوں گے۔
اقوام متحدہ یا عرب ممالک کی حمایت یافتہ تجاویز کے برعکس، جو ٹیکنوکریٹک حکمرانی یا فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی کی حمایت کرتی ہیں، ٹرمپ کے اس منصوبے میں امریکی حکومت کی فنڈنگ کے بغیر نجی سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ طویل مدتی انسانی ہمدردی کے امدادی پروگراموں کے مقابلے، اس منتقلی سے، فی رہائشی ۲۳ ہزار ڈالر کی رقم کی بچت ممکن ہوگی۔ حامیوں کا اندازہ ہے کہ ایک دہائی میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر تقریباً چار گنا منافع حاصل ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا اعتراف: اسرائیلی لابی کانگریس پر اپنا رسوخ کھو رہی ہے
منصوبے کی تیاری میں اسرائیلی ماہرین کی شمولیت
یہ منصوبہ مبینہ طور پر ان ہی اسرائیلیوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جو غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے پیچھے ہیں جس پر غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام میں تعاون کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ایک اسرائیلی ٹیم نے اس کے مالی ماڈلنگ کا کام کیا ہے جس کا پہلے بوسٹن کنسلٹنگ گروپ (بی سی جی) سے تعلق تھا۔ تاہم، بی سی جی نے خود کو اس سے الگ کر لیا اور بتایا کہ یہ کام غیر سرکاری تھا اور اس کی وجہ سے دو سینئر پارٹنرز کو برخاست کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ سطحی گفتگو کا اشارہ ملا ہے جس کے شرکاء میں امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مارکو روبیو، اسرائیل کیلئے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر شامل تھے۔ ان افراد نے ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ اب تک کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن وٹکوف نے منصوبوں کو ”بہت جامع“ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں صحافیوں کے قتل کیخلاف صدائے احتجاج
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا خطرہ
تاہم، ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کو جبری طور پر منتقل کرنا یا ان کے واپسی کے حق سے انکار کرنا، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ قانونی ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی منصوبے کو مالی ترغیبات سے قطع نظر، خوراک، رہائش اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
غزہ نسل کشی
جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے محصور علاقے میں ۶۳ ہزار ۴۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین کو تسلیم کرنے کے میکرون کے فیصلے پر اسرائیل اور امریکہ ناراض
اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔