برطانیہ نے ۲۳؍جون کو فلسطین حامی گروہ’’پالیسٹائن ایکشن‘‘ پر دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی لگانے کا اعلان کیا، جس سے تنظیم کی رکنیت جرم بن جائے گی۔ اس فیصلے نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید ردعمل اور مظاہروں کو جنم دیا۔
EPAPER
Updated: June 30, 2025, 4:54 PM IST | London
برطانیہ نے ۲۳؍جون کو فلسطین حامی گروہ’’پالیسٹائن ایکشن‘‘ پر دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی لگانے کا اعلان کیا، جس سے تنظیم کی رکنیت جرم بن جائے گی۔ اس فیصلے نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید ردعمل اور مظاہروں کو جنم دیا۔
۲۳؍ جون کو برطانیہ نے دہشت گردی کے قوانین کے تحت فلسطین حامی مہم چلانے والے گروہ ’’پالیسٹائن ایکشن‘‘ پر پابندی لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس اقدام کے تحت ’’پالیسٹائن ایکشن‘‘ کی رکنیت برطانیہ میں ایک فوجداری جرم بن جائے گی۔ یہ فیصلہ شدید ردعمل کا باعث بناجس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی اور ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ۲۴؍ جون کو لندن میں مظاہرین اور میٹروپولیٹن پولیس کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں ۱۳؍افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے سات پر فردِ جرم عائد کی گئی، جن میں ایمرجنسی ورکرز پر حملہ اور نسلی بنیاد پر سنگین جرم شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قریب تھا کہ ایران اسرائیلی وزیر دفاع کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوجاتا !
پالیسٹائن ایکشن کیا ہے؟
پالیسٹائن ایکشن خود کو ایک ایسی تحریک قرار دیتا ہے جو’’اسرائیل کے نسل کش اور نسلی امتیاز پر مبنی نظام میں عالمی شراکت کو ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ‘‘یہ گروہ جولائی۲۰۲۰ء میں قائم ہوا اور’’خلل ڈالنے والی حکمتِ عملی‘‘استعمال کرتا ہے تاکہ ان کمپنیوں کو نشانہ بنایا جائے جو اسرائیل کی مددگار سمجھی جاتی ہیں، خاص طور پر اسلحہ بنانے والی کمپنیاں جیسے کہ:اسرائیلی کمپنی’ ایلبٹ سسٹمز‘، اطالوی ایرو اسپیس کمپنی’ لیونارڈو‘، فرانسیسی کثیرالقومی کمپنی’تھیلس‘امریکی کمپنی ’ٹیلیڈین‘یہ گروہ برطانیہ میں ایسی کمپنیوں کی تنصیبات کو بارہا نشانہ بنا چکا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں اس کے کارکنوں نے گلاسگو میں تھیلس کے ایک کارخانے میں گھس کر ایک ملین پاؤنڈ سے زائد مالیت کا نقصان پہنچایا۔ ۲۰۲۱ء میں کارکنوں نے لیسٹر میں الیبٹ سسٹمزکی ذیلی کمپنی یو اے وی ٹیکٹیکل سسٹمزکی چھت پر چھ دن تک احتجاج کیا جس کا اختتام کئی گرفتاریوں پر ہوا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائی کی تیاری
پابندی کیوں لگائی گئی؟
۲۳؍جون کو ہوم سیکریٹری یویٹ کوپر نے ’’پالیسٹائن ایکشن‘‘ کو دہشت گردی ایکٹ۲۰۰۰ءکے تحت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ۲۰؍ جون کے ایک واقعے کے بعد کیا گیا جب کارکنوں نے آکسفورڈشائر میں برطانوی فضائیہ کے سب سے بڑے اڈے آر اے ایف برائز نورٹن میں گھس کر دو ایئربس طیاروں کے انجن میں سرخ پینٹ چھڑک دی اور کروز بار سے نقصان پہنچایا، جس سے ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر نے اس واقعے کو’’شرمناک‘‘ قرار دیا۔ کوپر نے اسے ’’پالیسٹائن ایکشن کی ناقابل قبول مجرمانہ سرگرمیوں کی ایک طویل تاریخ کا حصہ‘‘ کہا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس وقت برطانیہ میں ۸۱؍ گروہ کالعدم ہیں جن میں حماس، حزب اللہ، داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: آئرش ریپر نی کیپ کا گلا سٹن بری شو’’ اسرائیل مردہ باد‘‘ کے نعروں سے گونچ اٹھا
پابندی پر ردِعمل
اس اعلان پر انسانی حقوق کے علمبرداروں اور کارکنوں نے شدید تنقید کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل یوکے کے سربراہ ساچا دشموک نے ۲۴؍ جون کو ایک بیان میں کہا:’’برطانیہ میں دہشت گردی کی بہت وسیع تعریف موجود ہے، اور’ `پالیسٹائن ایکشن‘ جیسے احتجاجی گروہ پر پابندی لگانا آزادی اظہار، اجتماع اور پرامن احتجاج کے بنیادی حقوق میں ناجائز مداخلت کا خطرہ رکھتا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ موجودہ فوجداری قوانین، بشرطیکہ انسانی حقوق کا تحفظ ہو، ایسے اقدامات سے نمٹنے کیلئے کافی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ پابندی ان تمام کارکنوں کی آزادیِ اظہار کو خطرے میں ڈال سکتی ہے جو غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی پر تشویش رکھتے ہیں۔ کیج انٹرنیشنل (CAGE International) نامی لندن میں قائم ایک تنظیم نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی۔ اس کی سربراہ نائلہ احمد نے کہا:’’ہم فلسطین ایکشن کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ دہشت گردی اور پابندی کے قوانین اب کھلے عام نسل کشی کے جاری رہنے میں معاون بن رہے ہیں۔ ‘‘ آئرش مصنفہ سالی رونی نے۲۲؍ جون کو دی گارڈین میں ایک مضمون میں لکھا:’’اسرائیل معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے، کارکن طیارے پر اسپرے پینٹ کرتے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ برطانوی حکومت ان میں سے کسے دہشت گردی کہتی ہے؟‘‘انہوں نے مزید لکھا: ’’اصل سیاسی مزاحمت ہمیشہ قانونی خلاف ورزیوں پر مشتمل رہی ہے۔ لیکن دہشت گردی ایکٹ کے تحت کسی تنظیم پر پابندی لگانا الگ بات ہے۔ یہاں تک کہ محض زبانی حمایت بھی۱۴؍ سال قید کی سزا کے قابل جرم بن سکتی ہے۔ ‘‘ساؤتھ ایشیا سالیڈیرٹی گروپ نے اسے ’’نوآبادیاتی اور سامراجی مزاحمت پر بدترین حملہ‘‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ انہوں نے ’’فِلٹن ۱۸‘‘ نامی کارکنوں کا ذکر کیا جو ایلبٹ سسٹمزکو نشانہ بنانے پر اس وقت قید میں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: والد کے بعد صدارتی انتخاب لڑ سکتا ہوں: ایرک ٹرمپ
مظاہرے اور ثقافتی ردِعمل
یہ پابندی ثقافتی میدان میں بھی محسوس کی گئی۔ آئرش ریپ گروپ Kneecap نے گلاسٹن بری فیسٹیول میں فلسطین ایکشن کیلئے یکجہتی کا اظہار کیا۔ بینڈ کے رکن اوہانا (مو چارا) فلسطینی رومال پہنے اسٹیج پر آئے اور ۳۰؍ ہزار افراد سے مخاطب کیا۔ اوہانا پر نومبر۲۰۲۴ءمیں لندن میں حزب اللہ کا جھنڈا لہرانے پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ ہے۔ وہ اس وقت ضمانت پر ہیں اور اگست میں سماعت ہو گی۔ Kneecap نے شکریہ ادا کیا کہ فیسٹیول آرگنائزرز مائیکل اور ایملی ایوس نے اسٹارمر کے دباؤ کے باوجود ان کی پرفارمنس منسوخ نہیں کی۔ یہ پابندی آزادی اظہار، احتجاج کے حق، اور فلسطینیوں کے حق میں سرگرمیوں پر برطانیہ کے مؤقف کے بارے میں جاری بحث کو مزید شدت دے رہی ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ مخالفت اور اختلافِ رائے کو دبانے کی وسیع تر کوشش کا حصہ ہے۔