• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مغربی بنگال: متھن چکرورتی کے اشتعال انگیز بیانات پر تنازع شدت اختیار کر گیا

Updated: November 03, 2025, 9:00 PM IST | Kolkata

بالی ووڈ اداکار اور بی جے پی لیڈر متھن چکرورتی نے مغربی بنگال کے ہاوڑہ میں بی جے پی کے کارکنوں کے اجلاس میں مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف متنازع بیانات دے کر شدید ردعمل کو جنم دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں شہریت ترمیمی قانون کے دفاع میں کہا کہ ’’غیر ملکی مسلمانوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا جانا چاہئے‘‘ جبکہ ’’پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندو، مذہبی پناہ گزین ہیں۔‘‘

Mithun Chakraborty. Picture: INN
متھن چکرورتی۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان میں دائیں بازو کے لیڈروں کی نفرت انگیز تقاریر پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تشویش کے درمیان، مشہور اداکار اور بی جے پی لیڈر متھن چکرورتی ایک نئے تنازع کا مرکز بن گئے ہیں۔ انہوں نے مغربی بنگال کے ہاوڑہ میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایسے بیانات دیئے جو سیاسی اور سماجی سطح پر شدید مخالفت کا باعث بن گئے۔ ان کی تقریر، جو بی جے پی کی انتخابی مہم کے حصے کے طور پر انڈین میڈیکل اسوسی ایشن ہال، ہاوڑہ میدان میں منعقدہ میٹنگ میں کی گئی، کا آغاز ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) پر الزامات سے ہوا۔ متھن نے کہا کہ ’’ٹی ایم سی ڈرانے کی سیاست کھیل رہی ہے اور جھوٹ پھیلا کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: رائے پور: شہریوں کو مظاہروں کیلئے ۵۰۰؍ روپے فیس ادا کرنی ہوگی

تاہم، ان کی تقریر جلد ہی فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’ٹی ایم سی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف کیوں احتجاج کر رہی ہے؟ الیکشن کمیشن نے کبھی نہیں کہا کہ ہندو یا مسلمانوں کو ووٹ دینے سے روکا جائے گا، تو پھر ٹی ایم سی سڑکوں پر کیوں ہے؟ کیا وہ غیر ملکیوں کیلئے احتجاج کر رہی ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت اور ووٹنگ کا حق دیا جانا چاہئے لیکن ’’غیر ملکی مسلمانوں‘‘ کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے۔ اگر ہندو یہاں آتے ہیں تو وہ مذہبی پناہ گزین ہیں۔ لیکن غیر ملکی مسلمان شہری نہیں ہو سکتے۔‘‘ 
ان بیانات کے بعد اپوزیشن اور شہری حلقوں میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سی پی آئی (ایم) کے لیڈر محمد سلیم نے کہا کہ ’’مسلمانوں کو غیر ملکی کہنا ان لاکھوں ہندوستانی شہریوں کی توہین ہے جن کے خاندان صدیوں سے بنگال میں آباد ہیں۔‘‘ ترنمول کانگریس کے ترجمان کنال گھوش نے متھن پر فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ’’بنگال کے لوگ اتحاد پر یقین رکھتے ہیں، وہ اس طرح کی تقسیم کی سیاست میں نہیں گریں گے۔‘‘ مغربی بنگال اقلیتی کونسل کی رکن ایڈوکیٹ نصرت جہاں نے بھی کہا کہ ’’اس طرح کی زبان خطرناک ہے۔ یہ مسلمانوں کو ’باہر کے‘ کے طور پر پیش کرتی ہے، جو نفرت اور تشدد کو ہوا دے سکتی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: دُلار چند یادوکے قتل کیلئے پرینکا اور تیجسوی نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا

متھن چکرورتی نے اپنی تقریر میں مزید دعویٰ کیا کہ مغربی بنگال ’’بنگلہ دیش میں تبدیل ہو رہا ہے‘‘، کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن ریاست میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں بنگلہ دیشی مسلمان غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، لیکن کوئی کچھ نہیں کہتا۔‘‘
بیان کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، اور چند گھنٹوں میں #StopHateSpeech، #MithunChakraborty، اور #HatePolitics جیسے ہیش ٹیگز ہندوستان بھر میں ٹرینڈ کرنے لگے۔ ہاوڑہ کے مقامی باشندے ساجد خان نے کہا کہ ’’یہ دکھ کی بات ہے کہ متھن دا، جنہیں ہم برسوں سے عزت دیتے آئے ہیں، اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہم سب ہندوستانی ہیں۔‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیانات انتخابی سیاست میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ’’۵۶؍ انچ کے سینے والے مودی ڈرتے ہیں‘‘

کلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسر ابوالکلام نے کہا کہ ’’بی جے پی ہمیشہ انتخابات سے پہلے مذہبی تقسیم کا مسئلہ اٹھاتی ہے تاکہ عوام کی توجہ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے حقیقی مسائل سے ہٹائی جا سکے۔‘‘ بین الاقوامی سطح پر بھی اس بیان بازی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حالیہ مہینوں میں ہندوستان میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر پر انتباہ دیا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ ہاوڑہ کے عالم مولانا شفیق الرحمان نے کہا کہ ’’سیاست کا مقصد اتحاد ہے، نفرت نہیں۔ اگر لیڈر ایسے ہی بولتے رہے تو وہ اس محبت بھرے بنگال کو تباہ کر دیں گے جسے ہمارے بزرگوں نے تعمیر کیا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK