Inquilab Logo Happiest Places to Work

الجزیرہ کے مرحوم صحافی انس الشریف کو ’’دہشت گرد‘‘ کہنے پر مغربی میڈیا پر انٹرنیٹ صارفین برہم

Updated: August 12, 2025, 10:02 PM IST | Washington

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے مرحوم صحافی انس الشریف اپنی موت سے مہینوں قبل ہی سے “اسرائیلی فوجی پروپیگنڈے کی مہم” کے نشانے پر تھے۔

Anas Al-Sharif. Photo: INN
انس الشریف۔ تصویر: آئی این این

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور چار دیگر صحافیوں کی شہادت کے بعد، متعدد مغربی خبر رساں اداروں کی جانب سے انہیں “دہشت گرد” قرار دیئے جانے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ صارفین اور میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں نے دی نیویارک ٹائمز، فاکس نیوز، نیوزویک، این بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے بڑے خبر رساں اداروں پر الزام لگایا کہ وہ آزادانہ طور پر ثبوت فراہم کئے بغیر اسرائیلی فوج کے دعوؤں کو دہرا رہے ہیں اور اسرائیلی حملوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملے میں الجزیرہ کے ۵؍ صحافی جاں بحق، الجزیرہ نے مذمت کی

مغربی میڈیا نے اسرائیلی دعوؤں کو دہرایا

مغربی میڈیا کی رپورٹنگ میں اسرائیلی الزامات کو شک و شبہ کے بغیر حقائق کے طور پیش کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر معروف خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اسرائیلی الزام کی آزادانہ تصدیق کئے بغیر اسے دہراتے ہوئے سرخی لگائی: “اسرائیل نے الجزیرہ کے اس صحافی کو ہلاک کر دیا جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ وہ حماس لیڈر تھا۔” معروف امریکی روزنامہ دی نیویارک ٹائمز نے بھی خبر کو اسرائیل کے دعوے کے گرد گھما کر پیش کیا اور معاون ثبوت کی کمی کو واضح نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا: “اسرائیل کا کہنا ہے کہ ۵ صحافیوں کو ہلاک کرنے والا حملہ ان میں سے ایک (انس الشریف) کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔” امریکی نیوز چینل فاکس نیوز نے اس الزام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، الشریف کو مکمل طور پر اسرائیلی بیانات کی بنیاد پر “حماس کے دہشت گرد سیل کا سربراہ” قرار دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ٹائم میگزین کا یوٹرن: اگست ۲۰۲۴ءمیں نیتن یاہو کا جنگی عزم، اگست۲۰۲۵ءمیں غزہ کی سنگین صورتحال پر توجہ

نیوزویک نے اپنے نیوز آرٹیکل بعنوان “اسرائیل نے الجزیرہ کے اس صحافی کو ہلاک کر دیا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حماس کا ممبر تھا: ہم کیا جانتے ہیں” میں اگرچہ “وہ (اسرائیل) دعویٰ کرتا ہے” لکھا گیا ہے لیکن وسیع طور پر اسرائیلی الزام پر کافی زور دیا گیا ہے۔ ایک اور امریکی نیوز ویب سائٹ، این بی سی نے بھی کسی مخالف بیانیے کو پیش کئے بغیر اپنی رپورٹ میں لکھا: “اسرائیل نے فضائی حملے میں الجزیرہ کے ۵ صحافیوں کو ہلاک کر دیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان میں سے ایک حماس کیلئے کام کرتا تھا”۔ انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف کی سرخی “اسرائیل کیوں سمجھتا ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والا الجزیرہ کا صحافی ایک دہشت گرد تھا” نے اس خبر کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے اسرائیل کے موقف کی وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ پر مکمل قبضہ کے ہولناک نتائج ہوں گے: اقوام متحدہ

میڈیا اداروں پر تنقید

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی بھی سرخی میں (اسرائیلی الزامات پر) الجزیرہ کے انکار، انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیانات یا آزاد تفتیش کاروں کے نتائج کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مبصرین نے خبردار کیا کہ ایک صحافی کو نشانہ بنانے کیلئے ایک فریق کے جواز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ایسی رپورٹنگ پریس پر حملوں کو جائز قرار دینے سے جنگ کے دوران میڈیا کی غیر جانبداری پر عوامی اعتماد ختم ہوسکتا ہے۔

امریکہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ الشریف اپنی موت سے مہینوں قبل سے ہی “اسرائیلی فوجی پروپیگنڈے کی مہم” کے نشانے پر تھے۔ سی پی جے کی سی ای او جوڈی گنزبرگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ”بین الاقوامی قانون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جنگ کے دوران صرف فعال جنگجو ہی جائز اہداف ہوتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل الشریف کے حماس کا رکن ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ واضح رہے کہ الشریف، جو محصور غزہ میں باقی ماندہ چند صحافیوں میں سے ایک تھے، رائٹرز کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے اسرائیل کی جنگ کی کوریج کیلئے ۲۰۲۳ء میں پلٹزر پرائز جیتا تھا۔ ان کی ہلاکت نے پریس کی آزادی، تعصب اور جنگی علاقوں میں صحافیوں کی حفاظت کے بارے میں خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اس سے پہلےکہ بہت دیر ہوجائے، پوپ کو بھوکےغزہ کا دورہ کرنا چاہئے: پاپ سنگر میڈونا

غزہ نسل کشی

اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک ۶۱ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی وفا نیوز ایجنسی کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں بھوک اور اسرائیلی فائرنگ سے ہلاکتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے

گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اسرائیل غزہ جنگ کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK