زنک نے مزید کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ میں جتنے صحافی مارے گئے ہیں، ”وہ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور یوکرین میں مارے گئے صحافیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔“
EPAPER
Updated: August 26, 2025, 8:01 PM IST | Ottawa
زنک نے مزید کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ میں جتنے صحافی مارے گئے ہیں، ”وہ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور یوکرین میں مارے گئے صحافیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔“
کنیڈین فوٹو جرنلسٹ ویلری زنک نے ۸ سال کی ملازمت کے بعد عالمی سطح پر معروف خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے ایجنسی پر غزہ میں اسرائیل کے صحافیوں کے منظم قتل کو “جائز قرار دینے اور اس میں شامل ہونے” کا الزام لگایا ہے۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں، زنک نے کہا کہ وہ ایسی ایجنسی کیلئے مزید کام نہیں کر سکتیں جس کی کوریج، غزہ کے سنگین حالات کیلئے ذمہ دار ہے جہاں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے تاحال جاری اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں میں اب تک ۲۴۶ سے زائد صحافی ہلاک ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے بین الاقوامی مذمت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر صحافیوں کا قتل کیا
رائٹرز کیلئے ۸ سال تک کام کرنے والی زنک کی رپورٹس، امریکی روزنامہ’دی نیویارک ٹائمز‘، الجزیرہ اور شمالی امریکہ، یورپ اور ایشیاء کے نامور میڈیا اداروں میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں، انہوں نے الجزیرہ کے پلٹزر انعام یافتہ نمائندے انس الشریف کا حوالہ دیا جو ۱۰ اگست کو غزہ شہر میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوگئے۔ انہوں نے رائٹرز کی مذمت کی کہ ایجنسی نے اسرائیل کے اس “بے بنیاد” دعوے کو شائع کیا کہ الشریف حماس کا سرگرم ممبر تھا۔ انہوں نے لکھا کہ ”یہ ان بے شمار جھوٹے دعوؤں میں سے ایک ہے جسے رائٹرز جیسی ایجنسیوں نے فرض شناسی کے ساتھ دہرایا اور اسے اہمیت دی۔“
رائٹرز پر شدید تنقید
زنک نے رائٹرز کو اپنے صحافیوں کا دفاع کرنے میں ناکامی پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ رائٹرز کے کیمرا مین حسام المصری، غزہ پٹی کے خان یونس میں النصر ہسپتال پر پیر کو ہوئے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ۲۰ دیگر افراد کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔ زنک نے اس واقعے کو ایک “ڈبل ٹیپ” حملہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ ایک ابتدائی حملہ تھا جس کے بعد امدادی کارکنوں، طبی عملے اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کیلئے دوسرا حملہ کیا گیا۔
صحافی جیریمی اسکیہل کا حوالہ دیتے ہوئے، زنک نے دلیل دی کہ مغربی میڈیا ”اسرائیلی پروپیگنڈے کی ایک ترسیلی پٹی“ بن گیا ہے، جو جنگی جرائم کو صاف ستھرا دکھاتا ہے اور فلسطینی متاثرین کی انسانیت کو کم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ میں جتنے صحافی مارے گئے ہیں، ”وہ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، کوریا، ویتنام، افغانستان، یوگوسلاویہ اور یوکرین جنگ میں مارے گئے صحافیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔“
زنک نے رائٹرز پر الشریف کو اس وقت بھی چھوڑ دینے کا الزام لگایا جب انہوں نے ایجنسی کیلئے پلٹزر انعام حاصل کیا تھا اور جب اسے اسرائیلی ہٹ لسٹ پر رکھا گیا تو ایجنسی اس کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی اور اس کے قتل کی ایمانداری سے رپورٹنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب اپنا رائٹرز پریس آئی ڈی کارڈ ”گہری شرمندگی اور غم“ کے ساتھ لئے پھر رہی ہیں۔ زنک نے غزہ کے صحافیوں کے اعزاز میں اپنا کام جاری رکھنے کا عہد کیا، جنہیں انہوں نے ”اب تک سب سے بہادر اور بہترین صحافی“ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: مشرقی اور مغربی غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شدت،النصر اسپتال پر بمباری
بین الاقوامی غم و غصہ
النصر اسپتال پر حملے میں کم از کم ۲۱ افراد ہلاک ہوئے جن میں الجزیرہ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور مقامی فلسطینی اداروں کے صحافی شامل تھے۔ الجزیرہ کے مطابق، اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد غزہ میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر ۲۷۳ تک پہنچ گئی ہے۔ فلسطینی جرنلسٹ سنڈیکیٹ نے اسے ”آزاد میڈیا کے خلاف کھلی جنگ“ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی نمائندہ فرانسیسکا البانیز نے ممالک پر زور دیا کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کریں، اسرائیل پرپابندیاں لگائیں اور صحافیوں کے قتل عام کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے غزہ میں صحافیوں کے قتل پر جوابدہی کا مطالبہ کیا جبکہ فرانس، جرمنی، اسپین اور برطانیہ کے لیڈران نے تحقیقات اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ترکی، قطر، مصر، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تنظیم اسلامی تعاون نے بھی حملوں کی مذمت کی اور ان ہلاکتوں کو پریس کی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: مسئلہ فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس
غزہ نسل کشی
جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں جس کے نتیجے میں ۶۲ ہزار ۳۰۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مارک رفیلو کی اسرائیل پردوبارہ تنقید، غزہ میں قحط پرعالمی اقدام کی اپیل
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔